قومی خبریں

کرناٹک میں مسلم طالبات کے لیے خصوصی کالج قائم کرنے کی تجویز، ہندو تنظیمیں ناراض، احتجاج کی دھمکی

خبروں کے مطابق حکومت اپنے فیصلے پر آگے بڑھ رہی ہے اور اس نے 2.50 کروڑ روپے کی گرانٹ بھی مختص کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی اس ماہ کالجوں کا سنگ بنیاد رکھنے والے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

بنگلورو: کرناٹک میں حکمراں بی جے پی حکومت کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کے لیے 10 نئے کالج قائم کرنے کے فیصلے پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ہندو تنظیموں نے اس کے خلاف خبردار کیا ہے۔ خبررساں ایجنسی آئی اے این ایس نے ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ حکومت اپنے فیصلے پر آگے بڑھ رہی ہے اور اس نے 2.50 کروڑ روپے کی گرانٹ بھی مختص کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی اس ماہ کالجوں کا سنگ بنیاد رکھنے والے ہیں۔

Published: undefined

ذرائع نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ کالج ملناڈ اور شمالی کرناٹک کے علاقوں میں قائم کیے جا رہے ہیں اور بعد میں ان میں توسیع کی جائے گی۔ کرناٹک وقف بورڈ کے چیئرمین مولانا شفیع سعدی نے کہا کہ خصوصی کالجوں کی تجویز بورڈ نے دی تھی اور یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا ہے جب بڑی تعداد میں مسلم لڑکیوں نے حجاب پہننے کی اجازت نہ ملنے پر پڑھائی ترک کر کے گھر میں رہنے کا انتخاب کیا۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ یہ تجویز مرکزی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی کو دی گئی تھی۔ وفد کی قیادت کرناٹک مزرائی کی وزیر ششی کلا جولے اور کلبرگی کے رکن پارلیمنٹ امیش جادھو نے کی۔ ریاستی حکومت نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ شفیع سعدی نے کہا ’’میں وزیر ششی کلا جولے کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے مسلم لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لیے بہن کی طرح پیش قدمی کی۔‘‘

Published: undefined

وہیں، ہندو جن جاگرتی سمیتی کے لیڈر موہن گوڑا نے کہا کہ اگر مسلم لڑکیوں کے کالج بن رہے ہیں تو ہندو تعلیمی ادارے بھی بنائے جائیں۔ یہ بتاتے ہوئے کہ حکومت کا فیصلہ سیکولرازم اور آئین کے اصولوں کے خلاف ہے، گوڑا نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے فیصلہ واپس نہیں لیا تو احتجاج کیا جائے گا۔

Published: undefined

کالجوں کی تعمیر کے خلاف ریاستی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے شری رام سینا کے بانی پرمود متھالک نے کہا ہے کہ ریاست میں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات سے پہلے مسلمانوں کو خوش کرنے میں ملوث ہوگی۔ یہ تقسیم کرنے والا فیصلہ ہے۔ اس سے طلبہ میں تفرقہ انگیز ذہنیت پیدا ہوگی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined