قومی خبریں

کانگریس نے ایک بار پھر مختلف ریاستوں میں ایس آئی آر کے طریقۂ کار پر کیا اظہارِ فکر، شفافیت کا کیا مطالبہ

رکن پارلیمنٹ ششی کانت سینتھل نے کہا کہ ایس آئی آر کا طریقہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ الیکشن کمیشن نے تذبذب والی حالت پیدا کر دی ہے اور اسی دباؤ میں کئی بی ایل او نے خودکشی جیسا قدم اٹھایا۔

<div class="paragraphs"><p>کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی کانت سینتھل پریس کانفرنس کرتے ہوئے، ویڈیو گریب</p></div>

کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی کانت سینتھل پریس کانفرنس کرتے ہوئے، ویڈیو گریب

 

کانگریس نے الیکشن کمیشن کے ذریعہ مختلف ریاستوں میں کرائی جا رہی ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) پر ایک بار پھر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ کانگریس نے ایس آئی آر کے طریقۂ کار پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کا الزام ہے کہ بغیر واضح تحریری ہدایات، مناسب تربیت اور ٹھوس وجہ بتائے ایس آئی آر کو جلدبازی میں نافذ کیا جا رہا ہے، جس سے عام ووٹرس، خصوصاً غریب اور حاشیہ پر رہنے والے طبقات کو نقصان ہو رہا ہے۔

Published: undefined

اندرا بھون واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی کانت سینتھل نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن پر اتنی جلدبازی میں ایس آئی آر مکمل کرنے کے لیے آخر کس کا دباؤ ہے؟ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایس آئی آر کا عمل، ڈپلی کیشن سافٹ ویئر، نئی ایپ اور اس کے نافذ ہونے و روکے جانے کی مدت کار کو لے کر ایک واضح تفصیل منظر عام پر لانی چاہیے۔

Published: undefined

سینتھل نے کہا کہ ایس آئی آر کے تحت گھر گھر جا کر سرٹیفکیشن کیا جاتا ہے اور ووٹر لسٹ کو تقریباً نئے سرے سے تیار کرنا ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے اس خطہ کا باشندہ ہونا ضروری ہے، لیکن اس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ روزگار کے سبب لوگوں کے جگہ بدلنے والی حالت میں بی ایل او کو زمین پر جا کر سمجھداری سے فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ یہ طویل اور پیچیدہ عمل پہلے 2 سال میں مکمل ہوتا تھا، لیکن اب اسے محض ایک ماہ میں پورا کرنے کا دباؤ بنایا جا رہا ہے، جس کے سبب کئی بی ایل او پر زیادہ دباؤ پڑا ہے۔

Published: undefined

سینتھل نے کہا کہ موجودہ ایس آئی آر کے عمل میں ووٹرس سے اینومریشن فارم بھروائے جا رہے ہیں، جن کے الگ الگ اصول ہیں۔ ایک ووٹر کا فارم آنے کے بعد بی ایل او کے ذریعہ جانکاری اپڈیٹ کی جاتی ہے اور دوبارہ جانچ کی ہدایت جاری کر دی جاتی ہیں، لیکن اس کے آگے کا عمل واضح نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن روزانہ نئی ہدایات ایپ کے ذریعہ جار کر رہا ہے، جس سے بی ایل او تذبذب میں ہیں۔ صرف اینومریشن فارم کی بنیاد پر فیصلہ لینے سے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ فیملی ریکارڈ اور 2002 کی ووٹر لسٹ سے ملان جیسے اصولوں کا سب سے زیادہ اثر غریب، مہاجر اور حاشیہ پر رہنے والے لوگوں پر پڑے گا، جن کے پاس ضروری دستاویز یا ڈیجیٹل میپنگ نہیں ہے۔

Published: undefined

سینتھل نے کہا کہ اس پورے عمل نے ملک بھر میں تذبذب والی حالت پیدا کر دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں کی ڈرافٹ ووٹر لسٹ جاری ہو چکی ہے اور ان میں 10 سے 15 فیصد تک حقیقی ووٹرس کے نام کٹنے کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں کچھ طبقات کے ووٹرس کے نام چنندہ طور سے ہٹائے جانے کا بھی ذکر کیا۔

Published: undefined

سینتھل نے بہار میں ایس آئی آر کے دوران ہوئی گڑبڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوک سبھا انتخاب تک ڈی-ڈپلی کیشن سافٹ ویئر کے ذریعہ ڈپلی کیٹ ناموں کی شناخت کی جاتی تھی، لیکن بہار میں اسے خامی کا حوالہ دے کر بند کر دیا گیا، جبکہ اب 12 ریاستوں میں اسے پھر نافذ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اسے الیکشن کمیشن کا واضح یو-ٹرن بتاتے ہوئے کہا کہ بہار کی ووٹر لسٹ میں اب بھی تقریباً 14.5 لاکھ ڈپلی کیٹ نام موجود ہیں۔ سینتھل نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن یہ واضح کرے کہ ڈی-ڈپلی کیشن سافٹ ویئر کا استعمال کب شروع کیا گا اور کب بند کیا گیا۔ علاوہ ازیں ووٹر لسٹ کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کس نئی ایپ کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی مکمل جانکاری منظر عام پر لائی جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined