تصویر سوشل میڈیا
یومِ آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے خطاب میں سیمی کنڈکٹر صنعت کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا، ’’ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر فیکٹری کا خیال 50 سے 60 سال قبل سامنے آیا تھا لیکن اسے سیاست کے سبب آگے نہیں بڑھایا گیا اور یوں ملک نے قیمتی وقت گنوا دیا۔‘‘ اس بیان پر کانگریس نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
Published: undefined
وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ لال قلعہ سے کسی حکومت کی براہِ راست تنقید کرنے نہیں آئے لیکن ملک کے نوجوانوں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ سیمی کنڈکٹر پر فائل ورک 50 سے 60 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ اس وقت ہی ختم کر دیا گیا اور یوں نصف صدی سے زیادہ کا قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔
مودی نے کہا، ’’جب ہم ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں کی بات کرتے ہیں تو میں آپ کی توجہ سیمی کنڈکٹر کے معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آج ہم اس بوجھ سے آزاد ہو کر مشن موڈ میں کام کر رہے ہیں۔ چھ مختلف سیمی کنڈکٹر یونٹس زمین پر اتر رہے ہیں اور چار نئے یونٹس کو پہلے ہی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سال کے آخر تک ‘میڈ اِن انڈیا’ چپس مارکیٹ میں آ جائیں گی۔‘‘
Published: undefined
کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے وزیر اعظم کے اس بیان کو ’حقیر‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’مسٹر مودی کتنے بڑے جھوٹے ہیں اس کا ایک اور ثبوت مل گیا۔ چنڈی گڑھ میں قائم سیمی کنڈکٹر کمپلیکس لمیٹڈ نے 1983 میں ہی آپریشن شروع کر دیا تھا۔‘‘ جے رام رمیش کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر بحث تیز ہو گئی، جہاں کئی صارفین نے تاریخی حقائق اور پرانی رپورٹیں شیئر کر کے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کی کوششیں چار دہائی قبل شروع ہو چکی تھیں۔
Published: undefined
سیمی کنڈکٹر کمپلیکس لمیٹڈ (ایس سی ایل) کی بنیاد 1983 میں رکھی گئی تھی اور یہ ادارہ مائیکرو الیکٹرانکس اور سیمی کنڈکٹر چپس کی تیاری کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں اس کا انتظام محکمہ خلائی امور (ڈیپارٹمنٹ آف اسپیس) کے ماتحت آ گیا۔ ماہرین کے مطابق اگرچہ اس دوران کئی تکنیکی اور پالیسی چیلنجز آئے لیکن یہ دعویٰ کہ ہندوستان نے سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں عملی قدم نہیں بڑھایا، حقائق سے میل نہیں کھاتا۔
Published: undefined
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بیان آئندہ انتخابات کے پیش نظر ٹیکنالوجی کے شعبے میں حکومت کی کارکردگی کو نمایاں کرنے اور مخالفین کو دفاعی پوزیشن میں لانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم، کانگریس کی جانب سے تاریخی حقائق پیش کرنے کے بعد اس معاملے پر سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined