فائل تصویر آئی اے این ایس
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے بیلگاوی ضلع کے ہلی کٹی گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں پینے کے پانی میں زہر ملانے کے مبینہ واقعہ کی سخت مذمت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حرکت مبینہ طور پر مسلم ہیڈ ماسٹر کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی تھی۔ سدارامیا نے ایکس پر ایک پوسٹ میں اسے مذہبی منافرت اور جنون سے متاثر ایک 'گھناؤنی حرکت' قرار دیا۔
Published: undefined
سدارامیا نے ایک بیان میں کہا، 'بیلاگاوی ضلع کے ساوادتی تعلقہ کے ہلی کٹی گاؤں کے سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔ اسے کہیں اور منتقل کرنے کے مذموم ارادے سے سری رام سینا کے تعلقہ صدر ساگر پاٹل اور دو دیگر کو اسکولی بچوں کے پینے کے پانی میں زہر ملانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔' یہ واقعہ تقریباً 15 روز قبل پیش آیا تھا جس میں کئی بچے بیمار ہوگئے تھے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
Published: undefined
اس عمل کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک 'سنگین خطرہ' قرار دیتے ہوئے سدارامیا نے کہا، "مذہبی جنون اور فرقہ وارانہ نفرت جیسی گھناؤنی حرکتوں کو جنم دے سکتی ہے اور یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے، جس کے نتیجے میں معصوم بچوں کی موت ہو سکتی تھی۔ اتنا ظلم اور نفرت کیسے پیدا ہو سکتا ہے ۔‘
Published: undefined
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں اور دائیں بازو کی تنظیموں پر تنقید کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ سیاسی فائدے کے لیے مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کو خود کا جائزہ لینا چاہیے۔"سدا رامیا نے پوچھا ’کیا پرمود متالک (سری رام سینا کے سربراہ) اس واقعہ کی ذمہ داری لیں گے؟ کیا بی وائی وجےندر ذمہ داری لیں گے؟ کیا آر اشوک ذمہ داری لیں گے؟ ایسے لیڈر جو ہمیشہ سماجی طور پر تباہ کن کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں، انہیں اب آگے آنا چاہئے اور اپنے گناہوں کا کفارہ دینا چاہئے،۔‘
Published: undefined
وزیر اعلیٰ نے متنبہ کیا کہ ہر قسم کی تعصب معاشرے کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "تعصب اور بنیاد پرستی کی تمام شکلیں انسانی معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ ہم نے نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کیا ہے اور ہم ایسے عناصر کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی کر رہے ہیں۔"
Published: undefined
عوامی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہماری تمام کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے عوام کو بھی ایسی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، ان کی مخالفت کرنی چاہیے اور شکایات درج کرنی چاہیے۔ میں اب بھی مانتا ہوں کہ جو لوگ آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں، ان کی تعداد فرقہ پرستوں سے سو گنا زیادہ ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined