قومی خبریں

جھارکھنڈ میں اپنے ہی وزیر اعلیٰ پر بی جے پی کو نہیں اعتبار، مودی-شاہ کے نام پر لڑا جائے گا الیکشن!

بی جے پی کے سامنے جھارکھنڈ میں زبردست چیلنج ہے۔ این ڈی اے میں شامل جنتا دل یو اور ایل جے پی کے ساتھ ہی آجسو کے الگ ہو جانے کے بعد اب بی جے پی کو وزیر اعلیٰ پر بھی بھروسہ نہیں رہ گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جھارکھنڈ میں آجسو اور بی جے پی کے درمیان رسمی ’طلاق‘ کے بعد بھگوا پارٹی نے پالیسی طے کی ہے کہ اسمبلی انتخاب میں وزیر اعلیٰ رگھوبر داس کو پارٹی کا چہرہ نہ بنا کر وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی سربراہ امت شاہ کی قیادت میں انتخاب لڑا جائے۔ ساتھ ہی ریاستی حکومت کی حصولیابیوں پر روشنی ڈالنے کی جگہ قومی ایشوز کو اٹھایا جائے۔

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST

جھارکھنڈ میں نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 13 نومبر کے بعد برسراقتدار این ڈی اے کی دو معاون پارٹیوں کے درمیان اتحاد ٹوٹ گیا۔ این ڈی اے کی ساتھی جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی نے بھی تنہا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی نے سہ رخی مقابلوں کا سامنا کرنے کے لیے مرکزی قیادت کو آگے رکھ کر انتخاب لڑنے کی پالیسی تیار کی ہے۔ پارٹی کو بھروسہ ہے کہ اس پالیسی سے اسے کافی فائدہ ہوگا۔

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST

پارتی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ وزیر اعلیٰ کے چہرے کو لے کر ہے، کیونکہ ریاستی بی جے پی میں رگھوبر داس کو غیر مقبول مانا جا رہا ہے اور یہ بات پارٹی کے کارگزار صدر جے پی نڈا اور پارٹی صدر امت شاہ تک پہنچ چکی ہے۔

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST

ذرائع کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے سے فیصلہ لیا گیا ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی وزیر اعلیٰ چہرے کو آگے نہیں کرے گی۔ ایک سینئر بی جے پی لیڈر نے رگھوبر کے ضمن میں کہا ہے کہ ’’ہم جانتے ہیں، ان سے لوگوں کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن اعتراف کرتا ہوں کہ الیکشن سے پہلے ہم خطرناک حالت میں ہوں گے۔ وہ ہمارے ’رام چندر‘ ہیں۔‘‘

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST

یہ پوچے جانے پر کہ وزیر اعظم کتنی ریلیوں کو خطاب کریں گے، بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ’’میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بوتھ صدور سے لے کر وزیر اعظم تک، سبھی انتخابی تشہیر میں سرگرم رہیں گے۔‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جھارکھنڈ میں مہاراشٹر یا ہریانہ سے زیادہ ریلیوں کو خطاب کریں گے۔ حالانکہ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے اعتراف کیا کہ اس بار الیکشن جیتنا 2014 جیسا آسان نہیں ہے۔

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Nov 2019, 10:11 AM IST