قومی خبریں

تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان نے مٹی کے برتن بنانے کے پیشے میں نئی روح پھونک دی

نوجوان نے بتایا کہ گریجویشن کرنے کے بعد نوکری نہ ملنے پر میں نے اپنے اجداد کے پیشے کو چن کر اس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

سری نگر: ایک تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان نے کشمیر کے مٹی کے برتن بنانے کے روایتی پیشے کو جدید خطوط پر استوار کرکے نہ صرف اس میں نئی روح پھونک دی ہے بلکہ امریکہ اور چین میں مشینوں سے بنائے جانے والے مٹی کے برتنوں سے بھی بہتر برتن وادی کے بازاروں میں دستیاب ہیں۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ محمد عمر کمہار کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ سے بنائے ہوئے چمکدار مٹی کے برتن امریکہ اور چین میں مشینوں سے بنائے جانے والے مٹی کے برتنوں کے مقابلے میں صحت کے لئے انتہائی مفید ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’سری نگر کے نشاط علاقے میں واقع میرے کارخانے میں بنائے جانے والے مٹی کے برتن امریکہ اور چین میں مشینوں سے بنائے جانے والے برتنوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں‘۔

Published: undefined

اپنے ابا و اجداد کے اس پیشے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کاوشوں کے بارے میں یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے محمد عمر نے کہا کہ ’چین اور امریکہ میں مشینوں سے بنائے جانے والے مٹی کے برتنوں کے بارے میں، میں نے یو ٹیوب پر کافی سرچ کیا اور مجھے اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کشمیر میں ہاتھوں سے بنائے جانے والے مٹی کے برتن ان ملکوں کے برتنوں سے بہتر بھی ہیں اور صحت کے لئے بھی زیادہ مفید ہیں‘۔

Published: undefined

محمد عمر کے بنائے ہوئے مٹی کے برتنوں سے محکمہ ہینڈی کرافٹس اور ہینڈ لوم کافی متاثر ہوا اور ’کارخانہ اسکیم‘ کے تحت انہیں مزید سات نوجوانوں کو یہ فن سکھانے کے لئے کنٹریکٹ پر استاد مقرر کیا ہے تاکہ اس روایتی فن کو فروغ مل سکے۔ بتادیں کہ کشمیر میں یہ پیشہ تنزلی کا شکار ہونے کے باعث اس سے وابستہ لوگ دوسرے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

Published: undefined

محمد عمر کمہار آج کل نیلے رنگ کے چمکدار مٹی کے برتن بنانے کا تجربہ کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی حضرت بل سری نگر میں واقع دکان پر ان خاص برتنوں کی تلاش میں بڑی تعداد میں گاہک آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’فی الوقت میں سرخ، سیاہ اور سبز رنگوں کے برتن تیار کرتا ہوں اور ان کو بنانے کے لئے میں مٹی کے علاوہ استعمال شدہ شیشے، استعمال شدہ بیٹری سیلز اور دھات کا استعمال کرتا ہوں اور پھر ایک خاص طریقہ کار سے ان کو آگ کی بٹھی میں تیار کیا جاتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ خام مال خریدنے کے لئے مجھے کم سے کم بارہ سو روپیے خرچ کرنے پڑتے ہیں تاکہ مختلف رنگوں کے چمکدار برتن بنائے جا سکیں۔

Published: undefined

موصوف نوجوان نے کہا کہ گریجویشن کرنے کے بعد نوکری نہ ملنے پر میں نے اپنے اجداد کے پیشے کو چن کر اس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں کامیاب ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں گزشتہ دو برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں اور اپنی روزی روٹی کما رہا ہوں‘۔

Published: undefined

محمد عمر نے کہا کہ اس فن کے بنیادی رموز سیکھنے کے لئے میں ایک ماہر 80 سالہ گلزار احمد کمہار کے پاس گیا جو کئی برسوں سے خانیار علاقے میں چمکدار مٹی کے برتن بناتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس بزرگ نے مجھے اس فن سے متعلق تمام راز اور تفصیلات بتائیں اور اس طرح وہ میرا اس پیشے میں استاد بن گیا‘ْ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بازار میں دستیاب مٹی کے برتنوں کا مشینوں یا ہاتھ سے رنگ کیا جاتا ہے لیکن جو برتن میں بناتا ہوں ان کا رنگ بٹھی میں ہی تیار ہونے کے دوران چڑھ جاتا ہے‘۔

Published: undefined

موصوف نوجوان نے کہا کہ یہ برتن کافی سستے ہیں اور ان کو ہر کوئی خرید سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبان بھی اب مریضوں کو کھانا پکانے اور کھانا کھانے کے لئے مٹی کے برتن ہی استعمال کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع کئے بغیر اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنا روز گار خود حاصل کرنے کی سعی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ سری نگر ایک کریٹیو سٹی قرار دیئے جانے سے اس پیشے کو فروغ ملنے کے مزید وسائل پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں نوجوانوں کو اپنی روزی روٹی خود کمانے کے کافی وسائل موجود ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined