قومی خبریں

عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق عدالت عظمی کے فیصلے پر سختی سے عمل کیا جائے: شاہی امام سید احمد بخاری

احمد بخاری نے آخر میں وزیر اعظم سے سوال پوچھا کہ وزیراعظم صاحب یہ جو کچھ ہورہاہے اور جو اس کے کرنے والے ہیں، وہ آپ کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس 

 

سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جواشاریئےدئے  ہیں، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر قدغن لگانے کے لئے سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کااظہار شاہی امام مولانا سیداحمد بخاری جامع مسجد دہلی نے کل نماز جمعہ سے قبل اپنے خطاب میں کیا ۔

Published: undefined

کل یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں انھوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اکتوبر1991میں بنے پارلیمانی ایکٹ عبادت گاہوں کے تحفظ کا خصوصی قانون پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے واضح تنبیہ کی تھی کہ اس ایکٹ کی رو سے مستقبل میں اس طرح کے مزید فتنوں کو ہوا نہ دی جائے، یہ اب سلسلہ ختم ہوجاناچاہئے لیکن ساتھ میں فیصلے میں کچھ ایسی گنجائش چھوڑدی گئی، جس کاغلط استعمال (مس یوز)اب روز کا وطیرہ بن گیاہے۔ جامع مسجد بدایوں کرناٹک ،مدھیہ پردیش ،اور دیگر ریاستوں میں اس طرح کے دعوے اور سروے کی باتیں نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ شاہی جامع مسجد سنبھل اور 800سال پرانی درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز ؒ تک پہنچ چکاہے۔آخر ہم اس طرح کے معاملات کو کہاں تک لے جاناچاہتے ہیں۔

Published: undefined

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد کے حوالے سے تمام زمینی حقائق مسجد کے حق میں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فیصلہ مندر کے حق میں دیا ،ہم روز اول سے عدالتوں کے فیصلے کو ماننے کی اور اپنے آپ کو اس کاپابند رکھنے کی کئی دہائیوں سے برابربات کرتے رہے ہیں۔عدالت کے فیصلے حقائق پر ہوتے ہیں جذبات پر نہیں۔انھوں نے دعوی کیا کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ واحد فیصلہ جو اکثریت کے مذہبی جذبات کی بنیادپرحقائق سے روگرادانی کرتے ہوئے اس کے حق میں دیاگیامسلمانوں نے اپنا وعدہ نبھایا،عہد کی پابندی کی اور چوں تک نہیں کی۔

Published: undefined

احمد بخاری  نے دعوی کیا کہ اب یہ سلسلہ سروے سے بڑھ کردنگوں، ہلاکتوں،یک طرفہ زیاتیوں،قیدوبند کی صعوبتوں، اور نفسیاتی محرومیوں کی حدوں کو پارکرتا جارہا ہے۔سنبھل میں ایک ضلع مجسٹریٹ آنافانا میں سروے آرڈر دیتاہے، دو گھنٹے میں اس پر عمل شروع ہوجاتاہے سروے ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور اسی دن سروے بھی کرلیاجاتاہے۔مسجد کمیٹی جو براہ راست فریق ہے جس کے صدرخود وکیل بھی    ہیں ان کو بھی سنا نہیں جاتا،ایسی جلد بازی کیوں؟ کیا کسی نئے فتنے کو جگانے کیلئے ایساکیاگیا؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے جب کہ پرامن طریقے سے پہلا سروے کرایاگیا ،کمیٹی کے لوگ سنبھل لوک سبھاکے رکن ضیاءالرحمن برق وہاں موجود رہے اور خوش اسلوبی سے یہ کام انجام پاگیا۔

Published: undefined

مولانا بخاری نے کہا کہ ایک مرتبہ سروے کرنے میں فیصلے کی گنجائش تھی لیکن پھر دو دن بعددوبارہ سروے بغیر عدالت کی اجازت کے کیاگیا ،صبح نماز فجر کے وقت سروے ٹیم وہاں پہنچتی ہے، اگر ٹیم میں صرف سروے سے متعلق اراکین ہوتے ،تب بھی صبر آجاتا۔لیکن ان کے ساتھ غیر متعلق لوگوں کا نعرے لگاتے ہوئے مسجد میں داخل ہونااس بات کا ثبوت ہے کہ نیت سروے کی کم دنگے کی زیادہ تھی،عوام کااس حرکت پر غصہ آنافطری تھا۔ بعد ازاں حالات بگڑتے گئے گولیاں چلیں،ہلاکتیں ہوئیں، 5 نوجوان بچے لقمہ ءاجل بن گئے ،متعدد لوگ زخمی ہوئے،متعدد گرفتاریاں ہوئیں،سیکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔شہر میں خوف وہراس کاماحول ہے ۔

Published: undefined

انھوں نے کہا کہ زندگی میں کئی بار ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان خود کوبے بس اور لاچار محسوس کرتاہے۔ آج یہی حال دنیا میں مسلمانوں کا ہے جہاں وہ سخت آزمائشوں اور امتحانی کیفیت سے گزررہاہے۔ غزہ، لبنان، سیریا، سوڈان،یمن اورعراق کے بے بس عوام دنیائے انسانیت کو پکارہے ہیں لیکن حیوانیت کایہ ننگا ناچ آج بھی برابر جاری ہے۔غزہ میں ہزاروں شہید،ہزاروں زخمی،لاکھوں بے گھراس تباہی اوربربادی کے بعد بھی مسلم ممالک بیدارنہ ہوسکیں تواس کو کیاکہاجاسکتا ہے؟ فلسطین کے نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں نے جس صبرکا مظاہرہ کیاہے، ان کی اس ہمت  کو سلام ہے۔

Published: undefined

انھوں نے کہا کہ آج وطن عزیز کے جو حالات ہیں اور جس سے آپ اور ہم گزررہے ہیں اب سب کو مل کر یہ طے کرناہوگا کہ ہمارے ملک  کوکس طرف جاناہے ،جو ہم نے آئین میں طے کیاہے جس پر آج بھی سب کا اتفاق ہے ۔ آج قیادت وزیراعظم کے پاس ہے اور یہ تمام باتیں ان سے سیدھی جڑتی ہیں۔ اُس سے یہ یقین پیداہوتاہے اور ہونابھی چاہئے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہے برابری اور مساوات ہے اور عدل وانصاف کا دوردورہ ہے۔لیکن ہندوستان کی اقلیتوں میں بالعموم اورمسلمانان ہند میں بالخصوص سابقہ چند برسوں میں احساس محرومی پیداہوئی ہے۔ماضی میں اخلاق اور پہلوخاں کا واقعہ یک طرفہ بلڈوزر ، مساجد،مدارس اور مزارات کی متعدد انہدامی کارروائیاں، ہجومی تشدد کے مجرمین کے گلوں میں پھول پہناکر استقبالیہ دیاجانا۔

Published: undefined

انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر ذرا احتجاج بھی کرے اور اس میں کچھ نقصان ہوجائے تو اس کی بھرپائی اسی سے کیاجاناان کوجیلوںمیں ڈالنا،ناجائز مقدمات دائر کرنا، توہین رسالت،قرآنی آیات کی بے حرمتی،اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے نہایت گھٹیا زبان کا استعمال یہ سب تو وزیراعظم آپ کے منصب سے میل نہیں کھاتے۔

Published: undefined

انھوں نے سوال کیا کہ مسلمانانِ ہند اس ملک کے برابرکے شہری نہیں ہیں؟ہریانہ میں کئی سال پہلے فسادہوا، جس میں ہزاروں کروڑوں روپے کی سرکاری املاک کانقصان ہوا،ان فسادیوں سے تو کوئی بھرپائی نہیں کی گئی پھر ہمارے ساتھ ایساکیوں؟ ہمارے خلاف سرکاری کارروائی میں اتنی تیز ی کہ نوٹس نہ دیاجائے یا اتنا کم وقت دیاجائے کہ سامان بھی نہ اٹھاسکیں،مکان بھی ہمارے گرائے جائیں،مسجدیں بھی ہماری شہید کی جائیں،مزارات بھی ہمارے منہدم کئے جائیں اور مقدمے بھی ہم پر قائم کئے جائیں ایسے میں مسلمانوںمیں احساس محرومی پیدا نہ ہوتوپھر کیاہو؟

Published: undefined

انھوں نے آخر میں کہا کہ ان کا یہ سوال ہے کہ وزیراعظم صاحب یہ جو کچھ ہورہاہے اور جو اس کے کرنے والے ہیں، وہ آپ کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے جواشاریئے دیئے گئے، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز یہ فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر روک لگانااب آپ کو اس حوالے سے ایک سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس روشنی میں جس کاذکر آپ یوم آئین پر کرتے چلے آرہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined