ادبیات

پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی: اردو ادب کا روشن ستارہ

پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی کی زندگی کا سفر، تعلیمی پس منظر، تصنیفی خدمات اور سماجی کردار ایک ایسی روشن مثال ہے جو نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر جمال عباس</p></div>

تصویر جمال عباس

 

اردو ادب کی وسیع و عریض دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنی علمی گہرائی، تحقیقی بصیرت اور تخلیقی صلاحیتوں سے نمایاں ہوتی ہیں بلکہ اپنی مسلسل خدمات سے زبان و ادب کی آبیاری بھی کرتی رہتی ہیں۔ انہی برگزیدہ اور لائقِ تحسین اصحاب میں پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی کا نام سرفہرست ہے۔ وہ ایک ممتاز عالمِ اردو، محققِ، صاحبِ نظر، ناقدِ باریک بین، مترجمِ ماہر، لسانیات دان، صحافی اور شاعر ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دینے والے یہ صاحبِ قلم تین عشروں سے زائد عرصے سے اردو کی خدمت میں مصروفِ ہیں۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور ادبی کارنامے اردو ادب کو نئی جہتیں عطا کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر، تعلیمی پس منظر، تصنیفی خدمات اور سماجی کردار ایک ایسی روشن مثال ہے جو نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی کی پیدائش 15 اپریل 1961 کو امروہہ میں ہوئی۔ امروہہ ایک ایسی ادبی بستی ہے جو فنونِ لطیفہ کے ہر شعبے میں گہرِہائے نایاب پیدا کرتی رہی ہے۔ضیا الرحمان صدیقی بھی اسی ادبی روایت کے وارث ہیں۔ ان کے نام میں "صدیقی" کا لاحقہ ان کے نسب کو حضرت ابوبکر صدیق سے ملاتا ہے، ان کے اجداد عرب سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے۔ والد عزیز الرحمان صدیقی اور دادا حافظ عبدالرحمان فارسی زبان پر کامل دسترس رکھتے تھے اور والد درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ ایسی ادبی اور علمی ماحول میں اگر ضیاء صدیقی کی شخصیت میں نکھار نہ آتا تو کس کی شخصیت میں آتا۔

Published: undefined

ابتدائی تعلیم امروہہ میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے امام المدارس انٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ وہ اپنے دو اساتذہ، اردو کے استاد امام مرتضیٰ اور انگریزی کے لیکچرار ماسٹر توکل حسین سے بہت متاثر ہیں اور انکی تعلیم و تربیت کو اپنی تخلیقی عمارت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔آئی ایم کالج کے دو سال ان کی زندگی کے بیش بہا ایام تھے ۔مجتبیٰ لٹریری سوسائٹی کے نائب صدر تھے۔ یہ عہدہ انہوں نے تقریری مقابلے کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا، پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے "تحریک آزادی کا تاریخی و سماجی مطالعہ اردو نثر کی روشنی میں" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ وہ اردو کے ان نادر دانشوروں میں شامل ہیں جنہوں نے اردو میں ڈاکٹر آف لٹریچر (ڈی لٹ) جیسی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی جو تحقیق و تنقید کے میدان میں ان کی گہری مہارت اور علمی بلندی کی علامت ہے۔

ان کی ادبی زندگی کا آغاز بہت جلد ہوا۔ بارہویں کلاس میں بس کے سفر کے دوران ان کا پہلا شعر موزوں ہوا جو ایک غزل کا مطلع بنا:

جو اپنے آپ کو ہم کامیاب دیکھتے ہیں

ہمیں تو ایسا لگے کہ خواب دیکھتے ہیں

ان کا پہلا مضمون جوش ملیح آبادی کے فنِ شاعری پر تھا جو جون 1988 میں ویکلی "لہریں" میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ان کی تنقیدی بصیرت اور شاعری کے گہرے ادراک کی ابتدائی عکاسی کرتا ہے اور ان کے مستقبل کے تنقیدی کاموں کی بنیاد رکھتا ہے۔ ان کی پہلی کتاب 1991 میں شائع ہوئی جو امروہہ کے مشہور طنز و مزاح کے شاعر شہباز امروہوی کی شخصیت اور فن پر تھی۔ یہ کتاب ان کی تحقیق کی ابتدائی عمدگی اور اپنے شہر کے ادبی ورثے سے گہری وابستگی کی گواہی دیتی ہے۔

Published: undefined

پروفیسر صدیقی کا پیشہ ورانہ سفر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوا جہاں وہ شعبہ اردو میں فیکلٹی ممبر رہے۔ یونین پبلک سروس کمیشن امتحان پاس کرکے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز (وزارت تعلیم، حکومت ہند) کے مختلف علاقائی مراکز میں پرنسپل اور ڈپٹی ڈائریکٹر رہے۔ہماچل پردیش کے گورنر کے اردو مترجم و انٹرپریٹر کے طور پر راج بھون شملا میں خدمات انجام دیں۔ فی الحال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور اکادمک سیکریٹری ہیں۔ کووڈ۔19 کے دور میں طلبہ کی مدد کے لیےانہوں نے 100 سے زائد آڈیو ریکارڈنگز تیار کیں، سوئیم پورٹل پر 52 ویڈیو اور 259 آڈیو لیکچرز اپ لوڈ کیے جو مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔ قومی سطح پر 150 پی ایچ ڈی مقالوں کے ایگزامینر رہے ۔

تصنیفی اور تحقیقی خدمات کے میدان میں پروفیسر صدیقی کا مقام بلند ہے۔ انہوں نے تقریباً 25 کتابیں تصنیف کیں جو ساہتیہ اکیڈمی، نیشنل بک ٹرسٹ، این سی پی یو ایل اور یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئیں۔ ان میں "اردو ادب کی تاریخ" "اردو ہندی ڈکشنری""آسان اردو گرامر"، "جدید اردو ریڈر"، "تحریک آزادی اور اردو نثر"، "دہلی کے اردو ادارے"، "جوش کی تیرہ نظمیں"، "شہباز امروہوی"، "اقبال سہیل کا فن" اور انگریزی کتاب "Freedom Movement and Urdu Prose" قابلِ ذکر ہیں ۔۔انکا عظیم ادبی کارنامہ "اردو ادب کی تاریخ" مرتب کرنا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہیکہ اسکے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔یہ کتاب انہوں نے ثانوی زبان کے طلبا کے لئے اس انداز سے لکھی ہیکہ طلبا کی عمراور ذہنی سطح کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔اور اسی مناسبت سے زبان بھی سادہ اور سلیس استعمال کی ہے۔

Published: undefined

ترجمہ نگاری میں بھی پروفیسر صدیقی نے سنگ میل قائم کئے ہیں۔ انکی ترجمہ شدہ کہانیوں کی کتاب 'جنم دن' سات کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں پانچ کہانیاں،'مرگ شجر'،'کبڑا بھکاری'،'اچھوت'،'خواہش' اور 'جنون' دون کا سبزہ،رسکن بانڈ کی انگریزی کہانیوں کے مجموعے Our Trees Still Grow In Dehra کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب ضیا صدیقی نے ساہتیہ اکادمی کے ایما پر تیار کی تھی جسے ساہتیہ اکادمی نے ہی شائع کیا۔'جنم دن'NCERTنے بارہویں درجےکی درسی کتاب 'خیابان اردو'میں شامل کی ہے۔

ان کی کئی کتابیں این سی ای آر ٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ خاص طور پر "آسان اردو گرامر" کو فرانس کی مشہور یونیورسٹی INALCO (Institut National des Langues et Civilisations Orientales، پیرس) نے اپنے بیچلر ڈگری پروگرام "Urdu Language and Civilization" کے پہلے سال کے طلبہ کے لیے بطور نصابی کتاب منتخب کیا تھا۔ یہ کتاب ابتدائی طلبہ کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ عالمی سطح کی ایک بڑی منظوری ہے جو پروفیسر صدیقی کی لسانی مہارت اور گرامر کی تدریس میں گہری بصیرت کی گواہی دیتی ہے۔انکے ایک سو پچاس سے زائد تحقیقی مقالات معتبر جرائد میں شائع ہوئے۔

ترجمہ نگاری پروفیسر صدیقی کا خاص میدان ہے۔ وہ اس فن کو نئی نسل تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے بارہ قسطوں پر مشتمل ویڈیو لیکچر سیریز شروع کی جس میں ترجمہ کی تعریف، تاریخ، اقسام اور اردو کے ممتاز مترجمین پر روشنی ڈالی جائےگی۔امیدوار کو سیریز کے اختتام پر آن لائن امتحان کے بعد سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے گا۔

Published: undefined

پروفیسر صدیقی کی تحریر کا انداز نہایت سادہ، سلیس اور متین ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے گہری بات کو اس شائستگی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں سیدھا اتر جاتی ہے۔ انشائیہ کی تعریف کے حوالے سے ان کی تحریر ایک عمدہ نمونہ ہے:

"اختصار اور رمزیت کا تخلیقی امتزاج انشائیہ کو جنم دیتا ہے۔ اس میں کسی منطق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ انشائیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مضمون معلومات پر مبنی ہوتا ہے جبکہ انشائیہ داخلی کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ انشائیہ ذہنی تخلیق کی مختلف جہتوں کا حامل ہوتا ہے۔ معلومات عام قاری کا ذہن بھی قبول کر لیتا ہے لیکن انشائیہ کو قبول کرنے کے لیے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ انشائیہ کی تفہیم کے لیے ذہنی تربیت ناگزیر ہے۔"

اسی طرح تنقیدی بصیرت کا ایک خوبصورت نمونہ "لندن کی ایک رات" کے کرداروں کے تجزیے میں ملتا ہے:

"لندن کی ایک رات کے کردار بے چینی اور کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اور غلامی سے نجات کے طلبگار ہیں۔ وہ سماجی جکڑ بندیوں اور حکمران طبقے کی غلامی سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ اور آزاد زندگی گزارنے کے متمنی ہیں۔"

Published: undefined

یہ دونوں نمونے ان کی تحریر کی سلاست، گہرائی اور وضاحت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی نثر میں سادگی کے ساتھ ساتھ فکری پختگی ایسی ہے کہ عام قاری بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور خاص بھی متاثر۔

پروفیسر ضیا صدیقی صحافت سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جرنل "دانش" کے مدیر، "فکر و نظر" کی ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن، اورنگ آباد کے "اعتراف" کے سابق مدیر اعلیٰ، ہماچل پردیش کے "جدید فکر و فن" کی مجلس ادارت کے رکن اور نیویارک کےادبی سہ ماہی جریدے "ورثہ" کے ہندستان میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

پروفیسر صدیقی شوقیہ شاعر ہیں۔وہ نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ دل بستگی کے لئے شعر کہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی ہے۔

اشارہ کرکے اسے بزم غیر میں اکثر

ہم اس کے روئے حسیں کا عتاب دیکھتے ہیں

حیات شوق میں جب اس سے وصل ہو نہ سکا

بالآخر اپنی ہی قسمت خراب دیکھتے ہیں

ان کی شاعری میں روایتی عشق کی بجائے انسانی اقدار، حب الوطنی، خاکساری اور ہمدردی کے جزبات غالب ہیں۔

ہم اپنے لہجے کو بے آبرو نہیں کرتے

اسی لیے تو بہت گفتگو نہیں کرتے

۔۔۔۔۔۔

یہاں پہ سادہ مزاجی سے کچھ نہیں ملتا

تم اپنی بات کو کہنے کا اک ہنر رکھنا

۔۔۔۔۔۔

ذہن و دل میں فکر و فن کا اک جہاں رکھتا ہوں میں

عام لہجوں سے الگ طرز بیان رکھتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔

اک نشیمن تک نہیں محدود میرا آشیاں

جانے کتنوں کے دلوں میں آشیاں رکھتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔

تصدیق کر رہا ہے وہ اپنے گناہ کی

لیکن امان میں ہے وہ عالم پناہ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرکے تحقیر بزرگوں کی نئی نسل کے لوگ

اپنے اقدار کو پھر نام نیا دیتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین شعر میں خورشید اور قمر رکھنا

ادب کی راہ میں تم قوت سفر رکھنا

Published: undefined

ان کی ادبی اور علمی خدمات کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا گیا ہے۔ انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، نیشنل اردو ایوارڈ ،نشانِ اردو ایوارڈ ،قومی سطح کا بہترین ٹیچر ایوارڈ اور دیگر اعزازات سے نواز جا چکا ہے۔ اے ایم یو کے شعبہ اردو میں ان کی نگرانی میں بارہ پی ایچ ڈی اسکالرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے تقریباً نصف کو ڈگری عطا ہو چکی ہے۔ خود انکے اوپر بھی تحقیقی کام جاری ہے۔انکی شخصیت اور ادبی خدمات پر بھگونت یونیورسٹی اجمیر کی اردو اسکالر رفینہ چودھری نے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔پاکستان میں گونمنٹ کالج ویمن یو نیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو کی اسکالرغزالہ نورین نے ضیا الرحمان کی اردو ترجمہ نگاری پر ایم فل کے لئے مقالہ لکھا ہے۔ اورنگ آباد میں مراٹھواڑہ یونیورٹی میں ایک اسکالر تحقیقی مقالہ لکھ رہا ہے۔

پروفیسر ضیا کی شخصیت اور انکی ادبی خدمات پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر ارشد اقبال نے 'پروفیسر ضیا ارحمان کے ادبی متون' کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ضیا الرحمان کی ترجمہ نگاری کے تجزیاتی مطالعہ سے متعلق ایک کتاب شنکر راؤ کالج اردھا پور کی شعبہ اردو سے وابستہ ڈاکٹرجاگیر دار عزرا شیریں نے لکھی ہے۔

اردو مرکز نیو یارک کے سہ ماہی ادبی جریدے 'ورثہ 'نے ضیا الرحمان کی شخصیت اور تخلیقی خدمات پر ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا ہے۔اس میں ان کی شخصیت ،تحقیقی نظر، رجحانات اور فکر و تخیل کے حوالے سے 25 سے زیادہ نامور قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔اورنگ آباد مہاراشٹر سے شائع ہونے والا سہ ماہی جریدہ 'اعتراف' بھی انکے اوپر خاص شمارہ شائع کرنے جارہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined