مودی کے ہندوستان میں غیر مساوات عروج پر، ترقی کے ثمرات بالادست طبقے تک محدود

ورلڈ ایکویلیٹی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ترقی کے ثمرات محدود بالادست طبقے تک سمٹ گئے، دولت اور آمدنی کا ارتکاز تاریخی سطح پر پہنچ گیا، جس کی بنیادی وجہ پالیسی ترجیحات اور کمزور سماجی سرمایہ کاری ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

ہرجندر

اگر اولمپکس میں غیر مساوات کا کوئی مقابلہ ہوتا، تو اس میں ہندوستان سونے کے تمغے کا سب سے مضبوط دعوے دار ہوتا۔ ورلڈ ایکویلیٹی لیب کی جانب سے جاری کی گئی ورلڈ ایکویلیٹی رپورٹ 2026 نے ایک بار پھر اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی ہے کہ آمدنی اور دولت کے ارتکاز کے معاملے میں ہندوستان ان ممالک میں سرفہرست ہے، جہاں ترقی کے ثمرات ایک نہایت محدود بالادست طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے تجزیے میں اس نظام کو صاف لفظوں میں ’ارب پتی راج‘ قرار دیا گیا ہے۔

معروف ماہرِ معاشیات جیاں دریز کے مطابق، موجودہ دور میں دنیا میں کہیں بھی امیر ترین طبقے کی خوشنودی نہیں ہوتی جیسی ہندوستان میں کی جا رہی ہے۔ یہ طبقہ سب سے کم انکم ٹیکس ادا کرتا ہے، اس پر نہ تو ویلتھ ٹیکس عائد ہے اور نہ ہی وراثتی ٹیکس۔ حتیٰ کہ وبا جیسے بحران بھی ان کی جیبیں ڈھیلی کرنے میں ناکام رہے۔

یہ رپورٹ نہایت تشویشناک شواہد پیش کرتی ہے کہ ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں غیر مساوات انتہائی شدید سطح پر پہنچ چکی ہے۔ 2022-23 تک دولت مند طبقے اور باقی آبادی کے درمیان خلیج اس حد تک بڑھ گئی کہ اس نے نوآبادیاتی دور کے فرق کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دولت کا ارتکاز آمدنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے، جس سے طویل مدتی غیر مساوات مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں صنفی غیر مساوات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہندوستان میں محنتی افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت محض 15.7 فیصد ہے، جبکہ عالمی اوسط تقریباً 49 فیصد ہے۔ 2014 سے 2024 کے درمیان اس صورتِ حال میں کوئی قابلِ ذکر بہتری نہیں آئی۔ نتیجتاً ہندوستانی خواتین کے پاس اتنی اضافی آمدنی ہی نہیں بچتی کہ وہ دولت جمع کر سکیں۔ عالمی سطح پر خواتین کو اوسطاً مردوں کے مقابلے میں ایک چوتھائی کم اجرت ملتی ہے، مگر ہندوستان میں یہ ساختی عدم توازن کہیں زیادہ سنگین ہے۔


رپورٹ واضح کرتی ہے کہ یہ غیر مساوات کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ دانستہ اختیار کی گئی پالیسیوں کی پیداوار ہے۔ آزادی کے بعد سے 1980 کی دہائی تک ہندوستان کسی حد تک آمدنی اور دولت کے فرق کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی اور معاشی ڈھانچہ تھا، جو آزادی کے بعد تشکیل دیا گیا اور جس کا جھکاؤ مجموعی طور پر سوشلسٹ تھا۔ اہم شعبوں کی قومی تحویل اور ترقی پسند ٹیکس نظام نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔

1973 میں انکم ٹیکس کی بالائی شرح 97.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جس نے بالائی طبقے کے لیے بے تحاشا دولت جمع کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ 1982 میں اسی طبقے کے پاس موجود دولت اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔

تاہم 1980 کی دہائی کے بعد پالیسی ترجیحات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، جو بالآخر وسیع معاشی آزاد کاری تک جا پہنچی۔ یہ ایک بڑا ساختی موڑ تھا۔ اس کے بعد نیو لبرل پالیسیوں کے نتیجے میں ریاستی کنٹرول کم ہوتا چلا گیا اور منڈی پر مبنی ترقی کے ماڈل نے غیر مساوات کو بڑھاوا دینا شروع کر دیا۔

آزاد کاری نے آزادی کے بعد اختیار کی گئی پالیسیوں کا رخ الٹ دیا اور دولت کا ارتکاز تیز ہو گیا۔ بالادست طبقے کی آمدنی اور دولت باقی آبادی کے مقابلے کہیں زیادہ رفتار سے بڑھنے لگی۔ 1982 کے مقابلے میں 2022 تک اوپر کے 10 فیصد امیروں کی آمدنی تقریباً دوگنی ہو چکی ہے۔ نتیجتاً ترقی سے حاصل ہونے والا بڑا حصہ انہی لوگوں کی جیبوں میں گیا، جو پہلے ہی خوش حال تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طبقہ اوپر جاتا رہا اور دوسرا نیچے۔

جوں جوں معیشت میں خدماتی شعبے کا غلبہ بڑھا اور سرمایہ پر مبنی ترقی کا راستہ اختیار کیا گیا، امیروں کی آمدنی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس دوران چین کے برعکس، ہندوستان اپنی کم پیداواری زرعی افرادی قوت کو بڑے پیمانے پر بہتر اجرت والے پیداواری شعبوں میں منتقل کرنے میں ناکام رہا۔


ورلڈ ایکویلیٹی رپورٹ 2026 کے مطابق اس غیر مساوات کی بنیادی وجہ انسانی صلاحیتوں میں انتہائی کم سرمایہ کاری ہے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماجی شعبوں پر اخراجات کی رفتار تقریباً جمود کا شکار ہو گئی۔ گزشتہ ایک دہائی سے تعلیم پر خرچ جی ڈی پی کے چار فیصد کے آس پاس ہی اٹکا ہوا ہے، جو چھ فیصد کے وعدے سے بہت کم ہے۔ عوامی صحت پر خرچ 1.2 سے 1.5 فیصد کے درمیان محدود ہے۔ انسانی وسائل پر فی کس سرمایہ کاری میں معمولی اضافہ بھی نہ ہونے کے برابر رہا، جس نے مواقع کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے۔

زمینی اور مقامی سطح کے شواہد بھی اس تجزیے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگر زرعی شعبے سے غیر زرعی کاموں کی طرف افرادی قوت کی منتقلی ہو پاتی تو دیہی آمدنی میں نمایاں اضافہ ممکن تھا اور ایک ہی نسل میں سماجی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ باپ کی گزشتہ کمائی ہی بیٹے کا سب سے بڑا اثاثہ بن چکی ہے۔ بہتر اجرت والے غیر زرعی روزگار زیادہ تر موروثی دولت، سماجی حیثیت اور ذات پر منحصر ہیں، صلاحیت پر نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ شدید علاقائی اور مقامی عدم مساوات بھی موجود ہے۔ زیادہ صلاحیت والے صوبے، پسماندہ علاقوں سے مسلسل آگے نکلتے جا رہے ہیں۔ شہروں اور دیہات کے درمیان خلیج اپنی جگہ برقرار ہے۔ آج بھی دیہی خاندانوں میں نل کا پانی اور صاف ایندھن میسر ہونا مشکل ہے۔ اس پسماندہ بنیادی ڈھانچے کی قیمت دیہی غریبوں، خصوصاً خواتین کو ’ٹائم ٹیکس‘ کی صورت میں چکانی پڑتی ہے، جو خواتین کی کم محنتی شمولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔

رپورٹ کا بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں غیر مساوات نہ تو فطری ہے اور نہ ہی ناگزیر، بلکہ یہ سیاسی اور ادارہ جاتی انتخاب کا نتیجہ ہے۔ اسے بدلنے کے لیے مسلسل عزم اور ٹھوس پالیسی اقدامات درکار ہیں۔ ماہرِ معاشیات جینتی گھوش کے مطابق، ’’یہ تمام رجحانات منڈی کے کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ تاریخ، اداروں، ضابطوں اور پالیسیوں سے جڑے ہوئے ہیں، جن کا تعلق طاقت کے ان غیر متوازن رشتوں سے ہے جن میں اب تک توازن قائم نہیں ہو سکا۔‘‘


ٹیکس پالیسیوں میں تبدیلیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔ 2019 میں ترقی کی رفتار بڑھانے کے نام پر کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کی گئی تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں مگر اس کے بعد ٹیکس بوجھ کا توازن بدل گیا۔ 2023-24 میں پہلی بار ذاتی آمدنی ٹیکس کی وصولی، کارپوریٹ ٹیکس سے زیادہ ہو گئی۔ اسی عرصے میں کارپوریٹ منافع تین گنا بڑھ گیا۔ 2020-21 میں ڈھائی کھرب روپے سے بڑھ کر 2024-25 میں 7.1 کھرب روپے تک۔ اس کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں میں کارپوریٹ قرض معافیاں 6.15 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ پالیسیوں میں محنت کے مقابلے سرمایہ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

رپورٹ کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ رجعتی ٹیکس نظام کے بجائے دولت مند طبقے کو ہدف بنا کر ترقی پسند ٹیکس نظام نافذ کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق ارب پتی طبقہ ٹیکس نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر کم ٹیکس ادا کرتا ہے، جبکہ کم اور متوسط آمدنی والے طبقات پر نسبتاً زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔

ہندوستان میں فی الحال ویلتھ یعنی دولت پر ٹیکس موجود نہیں، جسے 2016-17 میں ختم کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ نہ صرف اس کی بحالی بلکہ امیر خاندانوں کے لیے وراثتی ٹیکس نافذ کرنے کی بھی سفارش کرتی ہے۔ محض دو فیصد ویلتھ ٹیکس کے ذریعے قومی آمدنی میں نصف فیصد اضافہ ممکن ہے، جو سماجی بہبود کے لیے اہم وسائل فراہم کر سکتا ہے۔

تاہم ان اقدامات کا فائدہ تبھی ہوگا جب تعلیم، صحت اور عوامی بنیادی ڈھانچے پر سرکاری اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا جائے اور یہ خدمات خاص طور پر دیہی آبادی کے لیے حقیقی معنوں میں قابلِ رسائی بنائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس سے متعلق سرکاری اعداد و شمار میں شفافیت اور عوامی دستیابی بھی ضروری ہے، تاکہ آزادانہ تحقیق اور جانچ ممکن ہو سکے اور غیر مساوات کم کرنے والی پالیسیاں مؤثر ثابت ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔