میر تقی میر / علامتی تصویر
بیس ستمبر 1810 کو لکھنؤ کے تہذیبی دل میں اردو کا ایک عظیم ترین شاعر میر تقی میر خاموش ہو گیا مگر دو صدیوں سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود میر محمد تقی، جو دنیا بھر میں میر تقی میر کے نام سے جانے جاتے ہیں، ہر غزل کی لے، ہر مصرعے کی آہ اور ہر عاشق کے دل کی مایوسی میں آج بھی زندہ ہیں، جب زبان اس کے درد کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدائے سخن کہلانے والے میر کی عظمت صرف اس بات میں نہ تھی کہ انہوں نے ابھرتی ہوئی اردو زبان کو زیبائش بخشی بلکہ انہوں نے اسے روح عطا کی۔ ان کے اشعار میں جذبات کی آفاقیت سمائی ہے، جہاں محبت، جدائی، تمنا اور مابعد الطبیعیاتی کرب یوں ایک دوسرے میں گندھتے ہیں کہ زمانوں کو عبور کرتے ہوئے آج بھی تازہ معلوم ہوتے ہیں۔
Published: undefined
میر 28 مئی 1723 کو آگرہ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو علم اور روحانیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ ان کے والد کے صوفیانہ رجحانات نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا اور انہیں انسان دوستی، بے رغبتی اور عشق کے باطنی جہان کی طرف مائل کیا۔ کم عمری میں یتیمی کے بعد وہ محض گیارہ برس کی عمر میں دہلی جا پہنچے۔ دہلی، جو اس وقت شعر و سخن اور اقتدار کا مرکز تھی، میر کی زندگی پر گہری چھاپ چھوڑ گئی۔
میر کے دور کی دہلی تضاد کا شکار تھی۔ ایک طرف تہذیب و نفاست کا چرچا، دوسری طرف مسلسل حملوں کی تباہ کاریاں۔ احمد شاہ ابدالی کے 1748 سے شروع ہونے والے حملوں نے شہر کو زخم زخم کر دیا۔ اس اجتماعی صدمے نے میر کے اشعار میں بسیرا کر لیا۔ ان کی شاعری دہلی کی زوال پذیری پر نوحہ بھی ہے اور اس کی تہذیبی روح کا مرقع بھی۔
جب دہلی کا چراغ بجھنے لگا تو میر نے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر لکھنؤ کا رخ کیا۔ مگر لکھنؤ کی نفیس تہذیب اور نازک مزاجی کے بیچ وہ ہمیشہ اجنبی رہے۔ ان کے دل میں دہلی کے کھنڈرات بسے رہے۔
Published: undefined
میر کا ورثہ بے پایاں ہے۔ ان کی کلیات 6 دیوانوں پر مشتمل ہے جس میں 13585 اشعار درج ہیں۔ غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، ہجو، سبھی اصناف میں انہوں نے طبع آزمائی کی مگر غزل میں وہ سرفہرست ہیں۔ میر کی غزلیں سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج ہیں، یوں کہ قاری کو لگتا ہے شاعر نے براہِ راست اسی سے گفتگو کی ہے۔
ان کی مشہور مثنوی معاملاتِ عشق اردو میں محبت کے مد و جزر کی سب سے خوبصورت تصویر کشی ہے۔ ان کی فارسی خودنوشت ذکرِ میر ایک ایسے شخص کا آئینہ ہے جو تقدیر کے زخموں سے نڈھال تو ہوا مگر ان زخموں کو شاعری میں ڈھال کر جاویدان کر دیا۔ ان کی کتاب نکات الشعراء، جس میں شعرا کے حالات درج ہیں، ان کے تنقیدی شعور اور روایت شناسی کا ثبوت ہے۔
اردو شاعری کے خالق تو میر نہیں تھے مگر اس کی پختگی، گیرائی اور موسیقیت انہی کے دم سے ہے۔ ہندوی محاورے کو فارسی پیکر میں ڈھال کر انہوں نے ریختہ تخلیق کیا، جو بعد میں غالب، اقبال اور فیض جیسے بڑے شعرا کی زبان بنی۔
Published: undefined
غم میر کا مستقل ساتھی رہا۔ قریبی عزیزوں کی موت، دہلی کی بربادی، دوستوں کی بے وفائی اور سرپرستوں کی بے اعتنائی، یہ سب ان کی روح پر نقش ہو گئے۔ اسی لیے میر کو درد و غم کا شاعر کہا گیا، جس نے رنج و الم کو لازوال بنا دیا۔
ان کا ایک شعر ہے:
دِیدنی ہے شکستگی دل کی،
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے۔
لیکن میر کا غم محض نوحہ نہیں بلکہ فن تھا، ایک ایسا جادو جہاں ذاتی کرب اجتماعی تجربہ بن جاتا ہے۔
راہ دورِ عشق میں روتا ہے کیا
میر کی شاعری کے مرکز میں عشق ہے۔ یہ صرف محبوب تک محدود نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ اور روحانی قوت کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ ان کے اشعار میں عشق کا نشہ بھی ہے اور اس کا زخم بھی۔
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو،
دیر سے انتظار ہے اپنا۔
غالب کے برعکس، جنہوں نے محبت کو فکری اور تجریدی مفہوم میں پیش کیا، میر نے اسے جسمانی اور حقیقی بنا دیا، زمین سے جڑی ہوئی ایک حقیقت، جو درد اور سرشاری سے دھڑکتی ہے۔ میر کا محبوب کوئی دور کا استعارہ نہیں بلکہ ایک محسوس ہونے والا وجود ہے، جس کی غیر موجودگی آگ کی طرح جلتی ہے۔
Published: undefined
میر کے ہاں مذہب یا عقیدے کی تنگ نائی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
میر کے دین و مذہب کا پوچھتے کیا ہو اُن نے تو،
کشکَہ کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا۔
یعنی میر کے نزدیک محبت ہی سب سے بڑی عبادت تھی۔ وہ مسجد اور مندر، میکدہ اور مزار— سب کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ یہی ہمہ گیری ان کی شاعری کو آج بھی انسانیت کا استعارہ بناتی ہے۔
اکثر سوال اٹھتا ہے کہ میر بڑا ہے یا غالب؟ اس کا جواب کبھی حتمی نہیں ہوا۔ مگر غالب نے خود کہا تھا کہ ’کہتے ہیں کہ ایک میر بھی تھا۔‘ ناقد شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق میر کی وسعت اور کیفیت آفرینی انہیں غالب پر بھی فوقیت دیتی ہے۔ اگر غالب کو اردو شاعری کا دماغ کہا جائے تو میر اس کا دل ہیں۔
میر کی زندگی کا انجام بھی انہی کی شاعری کی طرح غمناک تھا۔ لکھنؤ میں وہ ہمیشہ اجنبی رہے۔ 1810 میں دوا کی زیادتی سے ان کا انتقال ہوا۔ تدفین خاموشی سے ہوئی، وہ جلال نہ ملا جو ان کے فن کو سزاوار تھا۔
مگر وفات کے بعد ان کی شہرت اور مطالعہ بڑھتے گئے۔ سی ایم نعیم، رالف رسل، فرانسس پرٹچٹ اور فاروقی جیسے محققین نے میر کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ قاری آج بھی ان کی شاعری میں مرہم اور زخم، دونوں پاتا ہے۔
Published: undefined
دو سو پندرہ برس بعد بھی میر کوئی ماضی کی یادگار نہیں بلکہ آج کی دھڑکن ہیں۔ ان کے اشعار مشاعروں میں گونجتے ہیں، ان کی غزلیں گائی جاتی ہیں اور ان کے مصرعے دوستوں اور عاشقوں کے درمیان پیغام کی صورت گردش کرتے ہیں۔
ہر شکستہ دل، ہر آہ، ہر جستجو میں میر موجود ہیں۔ ان کی غزلیں بتاتی ہیں کہ ویرانی میں بھی حسن ہے، نقصان میں بھی فن ہے اور زبان جب حقیقی ہنر سے چھو جائے تو امر ہو جاتی ہے۔
پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے،
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔
یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ میر کے دکھ کو جانتا ہے، بس محبوب بے خبر ہے۔ یہی میر کا المیہ ہے اور یہی ہماری خوش نصیبی، کیونکہ اسی بے اعتنائی سے وہ شاعری جنم لیتی ہے جو زمانے سےبالاتر ہے۔
آج جب ہم میر تقی میر کو یاد کرتے ہیں تو صرف ایک شاعر کی موت پر نوحہ نہیں پڑھتے جو 1810 میں لکھنؤ میں دفن ہوا تھا، بلکہ ایک ایسی آواز کو زندہ کرتے ہیں جو کبھی نہیں مرے گی۔ جب تک دل محبت کریں گے، ٹوٹیں گے اور تڑپیں گے، میر پڑھے، سنے اور یاد کیے جاتے رہیں گے۔
(حسنین نقوی، سابق استاد تاریخ، سینٹ زیویئر کالج، ممبئی)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined