تصویر پریس ریلیز
نئی دہلی: ہندی ادب کے عظیم مفکر، محقق اور تخلیق کار آچاریہ ہزاری پرساد دویدی کے 119ویں یومِ پیدائش کے موقع پر ان کی علمی و فکری خدمات کو یاد کرتے ہوئے ’اشوک کے پھول‘ کے عنوان سے ایک لیکچر سیریز کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام آچاریہ ہزاری پرساد دویدی میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام سنیچر کو ساہتیہ اکادمی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جس میں ملک کے معروف ادیبوں اور محققین نے شرکت کی۔
Published: undefined
راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین ہری ونش نے اپنے صدارتی خطاب میں آچاریہ دویدی کو ’ثقافتی شعور کا عظیم علمبردار‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آچاریہ جی کے ادبی کام میں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے نزدیک ادب صرف تفریح یا اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ انسانیت کو جمالیاتی قدروں سے روشناس کرانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہری ونش کے مطابق آچاریہ دویدی کی فکر آج کے دور کی مادی چیلنجز سے نمٹنے میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
Published: undefined
پروگرام میں مشہور نقاد اور ادیب ڈاکٹر وِشنو ناتھ ترپاٹھی، رانچی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ ہندی ڈاکٹر وِندھیہ واسنی نندن پانڈے اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وِنے ’وشواس‘ نے آچاریہ جی کی زندگی اور فکر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر ترپاٹھی، جو آچاریہ دویدی کے شاگرد بھی رہے ہیں، نے ان کے ساتھ گزارے گئے یادگار لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہوں نے آچاریہ جی کی تدریسی روایت کو ’گرو-شِشیہ‘ یعنی استاد و شاگرد کے مثالی رشتے کی بہترین مثال قرار دیا اور ان کے معروف مضمون ’اشوک کے پھول‘ کی فکری گہرائی پر سیر حاصل گفتگو کی۔
Published: undefined
ڈاکٹر وِندھیہ واسنی پانڈے نے ’اشوک کے پھول‘ کو روایت اور جدیدیت کے تناظر میں پیش کیا اور اس کی فکری معنویت پر اظہار خیال کیا۔ پروفیسر وِنے وشواس نے اس مضمون کو زندگی کے فلسفے اور جمالیات کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ اصل خوبصورتی وہی ہے جو سادگی اور توازن سے مزین ہو۔ ان کے مطابق حسن تبھی پائیدار ہوتا ہے جب وہ فطری اور ہم آہنگ ہو۔
اس موقع پر آچاریہ دویدی میموریل ٹرسٹ کی صدر ڈاکٹر اپرنا دویدی نے ٹرسٹ کی آئندہ منصوبہ بندی سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ پروگرام کے دوران ٹرسٹ کی جانب سے شائع کردہ یادگاری رسالہ ’پُنرنوا‘ اور ڈاکٹر وِندھیہ واسنی پانڈے کی تصنیف ’آچاریہ ہزاری پرساد دویدی: وچار کوش‘ کی رسمِ رونمائی بھی کی گئی۔ آچاریہ دویدی کے پڑنواسے ابھے پانڈے نے معزز مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔
Published: undefined
ہرونش نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ جن آنکھوں نے آچاریہ جی کو قریب سے دیکھا ہوگا وہ جانتے ہیں کہ وہ علم و فکر کی ایسی شمع تھے جو کبھی بجھ نہیں سکتی۔ وہ صرف بڑے ادیب ہی نہیں بلکہ ایک زندہ ثقافتی تحریک اور بیداری کے پیامبر تھے۔ پروگرام کی نظامت سینئر صحافی اور لوک نیتی کے ماہر اوناش چندر نے کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined