انٹرویو

خصوصی انٹرویو: ’میری شناخت میرے نظریات سے ہے، میک اَپ سے نہیں‘، پرینکا بھارتی کا بے باک تبصرہ

آر جے ڈی ترجمان پرینکا کا کہنا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کچھ چینلز کی بائیکاٹ لسٹ میں میرا نام سب سے اوپر تھا۔ کچھ اینکرس صاف کہتے تھے کہ وہ میرے ساتھ مباحثہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اب وہ بیک فُٹ پر ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>آر جے ڈی ترجمان پرینکا بھارتی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

آر جے ڈی ترجمان پرینکا بھارتی، تصویر سوشل میڈیا

 

بہار میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ’ماں کی بے عزتی‘ اچانک سیاسی موضوع بن گئی ہے۔ انتخابی جلسوں میں کسی انجانے نوجوان کی حرکت کو بی جے پی نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لیکن آر جے ڈی ترجمان پرینکا بھارتی کہتی ہیں کہ ’’اصل توہین وہ ہے جو بی جے پی کے کنٹرول والے ٹی وی چینل بہار کی بیٹیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ کسی بھی طرح کم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طرح کی ’جدید چھوا چھوت‘ ہے۔‘‘

بہرحال، بے خوف اور پرجوش پرینکا بھرپور اعتماد کے ساتھ پلٹ کر جواب دینا جانتی ہیں۔ ان کی بے باک آواز بی جے پی کو کھٹکنے لگی ہے۔ یہاں تک کہ اقتدار کے زیر اثر ’درباری میڈیا‘ انہیں پرائم ٹائم مباحثوں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نند لال شرما نے پرینکا بھارتی سے ان کی زندگی کے سفر اور قومی میڈیا میں ان کی موجودگی پر خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہے اس گفتگو کے اہم اقتباسات...

Published: undefined

ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیے۔ آپ کے والدین کا اس میں کیا کردار رہا؟

میں بہار کے فتوحہ اسمبلی حلقہ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کی باشندہ ہوں۔ میرا خاندان نہایت عام پس منظر رکھتا ہے۔ میری والدہ نے صرف چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی کیونکہ گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ وہ زیادہ تر کھیتی باڑی اور گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی تھیں۔ والد نے بارہویں تک پڑھائی کی۔ شروع میں ٹیمپو چلایا، پھر کچھ اور ہنر سیکھے اور بعد میں زمین کی رسید کا کام کرنے لگے۔

مالی تنگی کے باوجود والد نے ہماری تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ رشتہ دار بارہا مشورہ دیتے تھے کہ ہمیں سرکاری اسکول میں ڈال دیا جائے، لیکن والد نے قرض لے کر بھی ہمیں بہتر اسکول میں پڑھایا۔ ان کی ضد تھی کہ بیٹی کو اچھی تعلیم ملے، خاص طور پر انگریزی تعلیم۔

2016 میں میں نے آئی آئی ٹی، جے این یو اور دہلی یونیورسٹی کے داخلہ امتحانات دیے اور تینوں میں کامیاب ہوئی۔ میری دلچسپی ادب میں تھی، اس لیے میں نے جے این یو کا انتخاب کیا۔ وہاں فیس صرف 180 روپے تھی، جو میرے لیے حیرت کی بات تھی۔ مجھے ’میرٹ کم مینز‘ اسکالرشپ کے تحت ہر ماہ دو ہزار روپے ملنے لگے، جس سے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی جرمن زبان پڑھانے کی وجہ سے میں نے اسکول کے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کیا، جس سے اضافی آمدنی ہو جاتی تھی۔

سماجی و سیاسی تحریکوں، خصوصاً سماجی انصاف کی فکر نے آپ کی زندگی پر کیا اثر ڈالا؟

جے این یو میرے لیے زندگی کا اہم موڑ تھا۔ وہیں میں نے سماجی انصاف اور ریزرویشن کی اہمیت کو سمجھا۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ نافذ ہونے کے بعد ہی یونیورسٹیوں میں ریزرویشن کا نظام شروع ہوا، جس کی وجہ سے مجھے بھی جے این یو میں داخلہ ملا۔ بعد میں پی ایچ ڈی میں میرا داخلہ عام زمرے میں ہوا۔

میں مانتی ہوں کہ لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ یادو، رام ولاس پاسوان، مایاوتی اور بی پی منڈل جیسے رہنماؤں نے پسماندہ طبقات کو مین اسٹریم میں لانے کا بڑا کام کیا۔ لیکن اس سفر میں کئی مشکلات بھی آئیں۔ جے این یو میں احتجاج کے دوران ہمیں اکثر بولنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ہماری آواز دبائی جاتی تھی، پوسٹر پیچھے کر دیے جاتے تھے۔ اس کے باوجود میں نے ہمیشہ اپنی بات رکھی۔ شروع میں غصہ آتا تھا، لیکن اب میں ان چیزوں سے اوپر اٹھ چکی ہوں اور ہر چیلنج کا سامنا مسکرا کر کرتی ہوں۔

آپ آر جے ڈی کی ترجمان کیسے بنیں اور میڈیا میں آنے کے بعد کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ایک دن اچانک مجھے فون آیا کہ آپ کو آر جے ڈی کا ترجمان بنایا گیا ہے۔ مجھے خود خبر نہیں تھی۔ تیجسوی یادو نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ ایک بار انہوں نے فیس بک پر میرے خطاب کی تعریف کی تھی جب میں پارٹی میں کسی عہدے پر بھی نہیں تھی۔ بعد میں لوگوں سے مبارکباد ملنے پر پتہ چلا کہ میں ترجمان بن گئی ہوں۔

میڈیا میں آنے کے بعد کئی طنزیہ باتیں سننی پڑیں۔ لوگ کہتے تھے کہ میک اپ نہیں کرتی، فاؤنڈیشن کیوں نہیں لگاتی۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ میں جیسی ہوں، ویسی ہی رہوں گی۔ کاجل اور بنیادی چیزیں میرے لیے کافی ہیں۔ میک اپ سے نہیں بلکہ نظریات سے شخصیت نکھرتی ہے۔

بطور ترجمان سب سے مشکل تجربہ کون سا رہا؟

سب سے تلخ تجربہ وہ تھا جب ایک پروفیسر نے مجھے ’دو ٹکے کے لوگ‘ کہہ کر تضحیک کی۔ یہ صرف میرا نہیں بلکہ میرے خاندان اور طبقے کی توہین تھی۔ یہ جملہ جاگیردارانہ اور ذات پات پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کا جواب دیا۔ وہ لمحہ تکلیف دہ تھا لیکن اس نے مجھے مزید مضبوط بنایا۔

کیا مرد اور خواتین اینکروں کے رویے میں فرق پایا؟

جی ہاں۔ خواتین اینکر زیادہ ٹوکتی ہیں اور حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ بعض اوقات حد بھی پار کر جاتی ہیں۔ مرد اینکر نسبتاً تحمل سے سنتے ہیں اور کم ٹوکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ خواتین ترجمانوں کو خواتین اینکرس کے سامنے جانا چاہیے تاکہ ہم انہی کی زبان میں جواب دے سکیں۔ مرد ترجمان اکثر جھجکتے ہیں اور سخت الفاظ استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔ شاید کچھ خواتین اینکرس یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں اپنی وفاداری ثابت کرنی ہے۔

آپ نے ایک پروگرام میں منوسمرتی پھاڑ دی تھی، اس کے بعد کیا ہوا؟

اس واقعہ کے بعد ایک خاتون اینکر نے مجھ سے کہا ’’کون منوسمرتی پڑھتا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں نے پوری کتاب پڑھی ہے، بغیر پڑھے تنقید نہیں کرتی۔‘‘ لیکن اس اینکر نے کہا کہ ’’میرا جی چاہ رہا تھا کہ تمہیں تھپڑ مار دوں۔‘‘ یہ وہی پرانی زبان ہے جس سے خواتین کو دبایا جاتا ہے، یعنی ’’تھپڑ ماریں گے، جھکائیں گے، تمہاری اوقات یہ ہے۔‘‘ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا ’’جو بھی آپ دیں گی، ہم سود سمیت واپس کریں گے۔‘‘

کیا بی جے پی کے زیر اثر مین اسٹریم میڈیا میں اپنی بات رکھنے کا کوئی فائدہ ہے؟

مین اسٹریم میڈیا میں بات رکھنا مشکل ضرور ہے کیونکہ صرف چند سیکنڈ ملتے ہیں اور بار بار بیچ میں ٹوکا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے سروے بتاتے ہیں 30 فیصد سے زیادہ ووٹر اپنی رائے ٹی وی سے بناتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ پلیٹ فارم چھوڑ نہیں سکتے۔ ہاں، آزاد پلیٹ فارمز پر زیادہ کھل کر بات کرنے کا موقع ملتا ہے، مگر ہر پلیٹ فارم پر موجودگی ضروری ہے۔

اس بار کا بہار اسمبلی انتخاب آپ کے لیے امیدیں جگانے والا کیوں ہے؟ 3-2 نکات میں بتائیں۔

پہلی بات، 2020 کے الیکشن میں ہم صرف 12 ہزار ووٹوں کے فرق سے حکومت نہیں بنا سکے تھے۔ کئی سیٹوں پر چند سو ووٹوں سے شکست ملی تھی۔ اس بار ہم زیادہ منظم ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانبداری کا خیال رکھتے ہوئے محتاط حکمتِ عملی بنا رہے ہیں۔

دوسری بات، تیجسوی یادو کی 17 ماہ پر مشتمل دورِ حکومت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے 5 لاکھ سرکاری ملازمتیں دیں، اسپتالوں میں معائنہ کیا، سیاحت اور کھیلوں کی پالیسیاں بنائیں، سینکڑوں ڈاکٹروں کو معطل کیا جو سرکاری ملازمت کے ساتھ پرائیویٹ کلینک چلا رہے تھے۔ اگر اتنے کم وقت میں اتنا کچھ ہو سکتا ہے تو 5 سال میں بہار کی تصویر بدل سکتی ہے۔

تیسری بات، ہم نے 50 ہزار کروڑ روپے کے معاہدے کیے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہمارا ویژن ہے کہ بہار کی معیشت مضبوط ہو، چاہے وہ مکئی، مکھانا یا کیلے کی پیداوار ہو۔ آج کیرالہ کے کیلے کے چپس دنیا بھر میں ملتے ہیں، لیکن بہار کے کیلے کا کوئی ذکر نہیں۔ ہم یہ بدلنا چاہتے ہیں۔

اب جب آپ باقاعدگی سے ٹی وی مباحثوں میں جانے لگی ہیں، کیا چینلز کا رویہ بدلا ہے؟

جی، اب وہ بدلے ہیں۔ پہلے تو کچھ چینلز نے میرا بائیکاٹ کر رکھا تھا اور اینکر صاف کہتے تھے کہ میرے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن اب وہ بیک فُٹ پر ہیں، کیونکہ عوام کے بیچ یہ بات عام ہو چکی ہے کہ مین اسٹریم میڈیا بی جے پی کے اشاروں پر چل رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined