عالمی خبریں

جب بیجنگ میں ’ابدی امن کا چوک‘ خون میں نہا گیا

کارل ہُٹیرر اپنے ہوٹل کی چھت سے چینی پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال دیکھ رہے تھے اور سکیورٹی فورسز جون 1989 کی ایک شب بڑے آپریشن میں مصروف تھیں۔

جب بیجنگ میں ’ابدی امن کا چوک‘ خون میں نہا گیا
جب بیجنگ میں ’ابدی امن کا چوک‘ خون میں نہا گیا 

تیس برس قبل ہُٹیرر بیجنگ میں تیانانمن اسکوائر کے قریب نہیں تھے، بلکہ اس سے اٹھارہ سو کلومیٹر دور واقع چینی شہر چینگ ڈو میں تھے، جب پولس نے ملک بھر میں جمہوریت نوازوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا۔ تین دہائیاں قبل سکیورٹی فورسز کے اس آپریشن سے پورا چین ایک دھچکے کا شکار ہو گیا تھا، جب ہزار ہا لوگ ملک کے مختلف مقامات پر حکومت کے خلاف مظاہروں میں مصروف تھے اور ان کا مرکز دارالحکومت بیجنگ کا تیانانمن چوک تھا۔

Published: undefined

اس چوک پر نوجوان طالب علم سرگرم عمل تھے، مگر چار جون سن 1989 کی شب چینی فوج نے ایک سخت گیر آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہُٹیرر کی یادداشتیں تاہم ان مظاہروں کی وسعت کی عکاس ہیں، جو اس چوک سے سینکڑوں میل دور ہونے کے باوجود اپنے آس پاس مظاہرے اور آپریشن دیکھ رہے تھے۔

Published: undefined

''میں نے دیکھا کہ ایک مقامی یادگار کے پاس سے انسان لے جائے جا رہے تھے، وہ زخمی تھے یا شاید ہلاک ہو چکے تھے اور انہیں ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا۔‘‘

Published: undefined

اس وقت ہُٹیرر کی عمر 49 برس تھی اور وہ امریکا میں اینتھروپالوجی کے پروفیسر تھے۔ اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے ہُٹیرر نے مزید بتایا کہ ایک شخص وہاں کھڑا تھا جہاں ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

Published: undefined

تیانانمن پیپرز، جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اندرونی تفتیش کی دستاویز تھے، ان کا کچھ حصہ لیک ہوا تھا، جس کے مطابق سن 1989 میں اپریل میں ان مظاہروں کا آغاز ہوا تھا مگر مئی کے آخر تک یہ چین کے سو سے زائد شہروں میں پھیل گئے تھے۔

Published: undefined

ہونان صوبے میں تب میڈیکل کالج میں انگریزی کی استاد آندریا وورڈن کے مطابق، ''یہ عوامی تحریک ملک بھر میں شروع ہوئی تھی۔ یہ عوام کی تحریک تھی، جہاں ہر شخص آزادی اور حقوق کے لیے دوسرے کے ساتھ جڑ گیا تھا۔‘‘

Published: undefined

وورڈن نے تب ہونان صوبے کے وسطی حصے میں یہ مظاہرے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ مگر تب غیرملکی میڈیا اسے کور نہ کر پایا تھا۔ اس طرح کئی کہانیاں لوگوں تک پہنچ ہی نہ پائیں اور کھو گئیں۔ چینی حکام نے نہایت منظم طریقے سے یہ کہانیاں مٹا ڈالیں اور اپنی مرضی کی تاریخ لکھ ڈالی۔ چین میں آج بھی ماضی کے ان واقعات پر سوال اٹھانے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔

وورڈن کے مطابق، ''بس کچھ ہی وقت ہے، اس کے بعد یہ باقی ماندہ یادداشتیں بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined