ویڈیو گریب
تقریباً 15 مہینے کی لڑائی کے بعد غزہ میں جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے۔ جنگ بندی نافذ ہوتے ہی فلسطینیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سڑکوں پر انہوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ وہیں دوسری طرف جنگ کے دوران بے گھر ہو کر پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونے والے فلسطینی اب اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے ہیں۔ گھر واپسی کی بے قراری لوگوں میں صاف نظر آ رہی ہے۔ جنگ بندی نافذ ہونے سے قبل ہی ان لوگوں نے اپنی پیکنگ شروع کر دی تھی۔
جنگ کے دوران بے گھر ہوئے فلسطینیوں نے بہت ہی مشکل حالات میں اپنی زندگی گزاری ہے۔ اس دوران وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتے رہے۔ ان فلسطینیوں کی کئی درد بھری کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی ماجدہ ابو زراد کی ہے۔ وہ اپنے کنبہ کے ساتھ مواسی واقع ٹینٹ سٹی میں رہ رہی تھیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد اس کنبہ نے اپنے گھر میں کسی طرح خود کو محفوظ رکھا تھا۔ اب اس گھر کی خوبصورت یادیں رہ گئی ہیں۔
Published: undefined
غزہ پر اسراٰئیلی حملے کے بعد ابو زراد خانہ بدوش کی زندگی گزار رہی ہیں۔ اپنے شوہر اور چھ بچیوں کے ساتھ وہ غزہ پٹی میں ایک لمبی دوری ناپ چکی ہیں۔ زراد بتاتی ہیں کہ وہ سات بار اپنا ٹھکانہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ ہر بار ان کی پہچان اور زیادہ غیر واضح ہوئی ہے۔ اس دوران زراد کے کنبہ کو اسکولوں کے کمروں میں اجنبیوں کی بھیڑ میں بھی سونا پڑا۔ اب جبکہ جنگ بندی نافذ ہوچکی ہے، یہ کنبہ پھر سے گھر کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ شمال میں چھوٹ گٓئے اپنے رشتہ داروں سے پھر سے مل سکیں گے۔
Published: undefined
یہ صرف ابو زراد کی کہانی نہیں ہے۔ سرکاری طور پر جنگ بندی نافذ ہونے سے پہلے گرجتی توپوں کے درمیان سبھی فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی راہ پکڑ لی تھی۔ گدھوں کے ذریعہ کھینچی جا رہی گاڑیوں پر ان کے سامان لدے ہوئے ہیں، راستے ٹوٹے-پھوٹے اور اونچے-نیچے ہیں۔
ایک دیگر شخص محمد مہدی نے کہا کہ بھلے ہی راستے میں مشکلیں آنے والی ہیں، لیکن اپنوں سے ملنے کی امید ان سب سے کافی زیادہ بڑی ہے۔ مہدی نے اتوار کی صبح ملبے سے بھرے راستے پر چلتے ہوئے اپنے گھر کا سفر طے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ راستے میں حماس کی پولیس غزہ سٹی کی گلیوں میں تعینات تھی اور لوگوں کو گھر واپس لوٹنے میں مدد کر رہی تھی۔
Published: undefined
مہدی نے بتایا کہ لوگوں کے گھر ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، لیکن ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ جشن منا رہے ہیں۔ وہ اپنے گھروں اور گلیوں سے ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جس کا ہم لوگ گزشتہ 15 مہینے سے انتظار کر رہے تھے۔
کچھ ایسی ہی کہانی 48 سال کی بیوہ اُمّ صابیر کی ہے۔ وہ چھ بچوں کی ماں ہیں اور بیت لاہیہ واقع اپنے گھر لوٹی ہیں۔ تحفظاتی وجوہات سے ان کی پہچان اب صابیر کی ماں کے طور پر ہی رہ گئی ہے۔ فون پر بات چیت میں انہوں نے کہا کہ گھر لوٹتے وقت ان کے کنبہ کو گلیوں میں لاشیں ملیں۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو ہفتوں سے وہیں پڑے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined