علامتی تصویر
پیرس: معتدل خیالات کے لیے مشہور صدر امینوئل میکروں کے ملک فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور نسل پرستی تشویشناک سطح پر پہنچ چکی ہے- اس بات کا انکشاف ایک تازہ سروے میں ہوا ہے- سروے کے مطابق 82 فیصد مسلمان مانتے ہیں کہ ان کے خلاف پورے ملک میں نفرت عام ہو چکی ہے جب کہ 81 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں اس نفرت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
یہ ایسے حالات میں ہے جب فرانس میں تقریباً 50 سے 60 لاکھ مسلمان آباد ہیں جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہے، لیکن گزشتہ سال کے مقابلے 2025 کے ابتدائی مہینوں (جنوری سے مئی) میں ہی مسلم مخالف واقعات میں 75 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سروے آئی ایف او پی نامی سروے ایجنسی کی طرف سے 1,000 فرانسیسی مسلمانوں کے درمیان کرایا گیا تھا اور اسے حال ہی میں تشکیل ’آبزرویٹری آف ڈسکرمنیشن اگینسٹ مسلمز‘ نے شائع کیا ہے۔
Published: undefined
سروے سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں تقریباً 66 فیصد مسلمانوں کو نسل پرستانہ برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ شرح فرانس کی عام مسلم آبادی (20 فیصد) اور دیگر مذاہب کے لوگوں (18 فیصد) سے کہیں زیادہ ہے۔ 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں میں یہ اندازہ 75 فیصد تک پہنچ جاتا ہے- اسی طرح 25 سال سے کم عمر کے نوجوانون میں 76 فیصد نے امتیاز کا سامنا کیا۔ دیگر مسلمانوں میں یہ 81 فیصد اور افریقی نژاد مسلمانوں میں 84 فیصد تک ہے۔
Published: undefined