تصویر اے آئی
فضائی حدود کھل گئیں، شیئر بازار چھلانگ لگانے لگا یعنی سب کچھ پہلے جیسا ہونا شروع ہو گیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روز سے جاری جنگ بند ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بہت سے معصوم لوگ، بہت سے کمانڈر اور سائنسدان ایک دوسرے پر حملوں کی نذر ہو گئے۔ جنگ کسی بھی حالت میں اچھی نہیں ہوتی، چاہے وہ کتنے ہی اچھے مقصد کے لئے کیوں نہ کی گئی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ تو کسی مقصد کے لئے ہی نہیں کی گئی۔ جب ایران اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا ایک اور دور شروع ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے اسرائیل نے ایران پر یہ کہہ کر حملہ کر دیا کہ ایران یورینیم کی افزودگی اس لئے کر رہا ہے کیونکہ وہ نیوکلیئر بم بنانے کی طرف گامزن ہے اور ایران اسرائیل کے لئے خطرہ ہے۔ اس کے لئے نہ اس کے پاس کوئی ثبوت تھا اور نہ کسی کا کوئی بیان، یعنی بغیر وجہ کے ایران پر حملہ کر دیا۔
Published: undefined
امریکہ جو ایک دن پہلے تک ایران کی تعریف کر رہا تھا اور بات چیت میں اس کے کردار کو سراہ رہا تھا اس نے بھی اسرائیل کے سر میں سر ملا دئے اور وہ بھی ایران کے نیوکلیئر بم سے متعلق الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بھی اسرائیل کی طرح ایران میں سیاسی تختہ پلٹنے کی بات کرنے لگا اور ایران کو اس کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے پاک کرنے کی بات کرنے لگا۔ اس دوران ایران نے بھی اسرائیل پر جوابی حملے کئے جس کی وجہ سے اسرائیل میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا لیکن اس درمیان بنجامن نیتن یاہو، جو سوالوں کے گھیرے میں تھے، ان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا یعنی جو عوام ان سے حماس کے ذریعہ اسرائیلیوں کو یرغمال بنائے جانے پر سوال کر رہی تھی اس عوام نے بھی سب کچھ بھلا کر ایران پر اسرائیلی حملوں کی حمایت کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عوام نیتن یاہو کے حق میں کھڑی رہتی ہے یا ان سے مزید سوال کرتی ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس جنگ نے اسرائیل اور امریکہ کی ترقی اور ترقی کے نام پر دادا گیری پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ ایرانی جوابی حملوں نے امریکہ کی فوجی صلاحیتوں کو نہ صرف بے نقاب کر دیا ہے بلکہ اس سارے معاملے میں اس کی چودھراہٹ پر بھی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اتحاد میں کامیابی ہے اور منتشر ہونے پر ہر طاقتور کی طاقت بھی سوالوں کے گھیرے میں آ جاتی ہے۔ اس مرتبہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ یوروپی ممالک کھڑے نظر نہیں آئے اس لئے امریکہ جیسی طاقت کو بھی جنگ بندی کی بات کرنی پڑی۔ کہنے کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امن کے مسیحا کا اعزاز حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ جنگ بندی کروا رہے ہیں لیکن جب وہ خود ایران کے نیوکلیئر اڈوں پر حملہ کرتے ہیں تو ان کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کو اس عمل کے بعد امن کے مسیحا کا اعزاز ملنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ اصل وجہ یہ ہی ہے کہ یوروپی ممالک نے ان کی مدد نہیں کی کیونکہ صدر ٹرمپ ہر چیز کو پیسہ میں تولنے لگے ہیں اور یوروپی ممالک بھی ان کے جواب میں اسی طرح سوچنے لگے ہیں۔
Published: undefined
اس سارے معاملے میں کوئی اگر سب سے زیادہ نقصان میں رہا ہے تو وہ امریکی صدر ٹرمپ ہیں کیونکہ آج کے دور میں کوئی ان پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس سارے معاملے میں جہاں امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے بات چیت میں ایران کے کردار کو سراہا لیکن اس کے فوری بعد ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا اور صدر ٹرمپ اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے دو ہفتوں بعد اس جنگ میں اپنی شرکت پر فیصلے کے لئے کہا لیکن دو دن بعد ہی ایران پر امریکہ نے حملے کر دئے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملکوں پر ٹیرف عائد کرنے کے معاملہ میں اور ہندوستان کے پاکستان میں گئے ’آپریشن سندور‘ پر جو کچھ بھی کہا وہ بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے، یعنی آج سب سے بڑا سوال ان کی ساکھ پر ہی کھڑا ہو گیا ہے۔
Published: undefined
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو جن کو سیاسی طور پر ایران پر حملوں سے فائدہ ہوا تھا اب ان کے لئے سب سے زیادہ مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ نیتن یاہو کو اب تک حماس کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے لوگوں کے عزیزوں کے سوال پریشان کر رہے تھے لیکن اب اسرائیلی عوام ان سے یہ بھی پوچھیں گے کہ اس جنگ سے کیا فائدہ ہوا اور ایرانی حملوں سے ہوئے نقصانات کی وہ کیوں بھرپائی کریں! کل ملا کر نیتن یاہو کے دن آگے مشکلات بھرے ہی نظر آتے ہیں۔
ایران کو اس جیت کا جشن منانے کے بجائے اب دنیا میں بڑھی اپنی مقبولیت کو مزید بڑھانا چاہئے کیونکہ یہ ان کی جیت نہیں ہے، بلکہ اسرائیل اور امریکہ کی ہار ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اب اس ہار کا بدلہ لیں گے اور وہ اس کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران اپنی خفیہ ایجنسیوں کو مضبوط کرے اور ’کالی بھیڑوں‘ کو اپنے نظام سے باہر کرے۔ جنگ کا خاتمہ ایک خوش آئند خبر ہے اور کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی کسی سے بدلہ نہ لے اور سب ایک دوسرے کی ترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined