غزہ کے امدادی کیمپ کا منظر / Getty Images
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ حکومت ہند نے فلسطین اور بالخصوص غزہ کو فراموش کر دیا اور کانگریس نے یاد رکھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ہر جگہ جنگ بند کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے لیکن انھوں نے غزہ کو کیسے بھلا دیا۔ وہ اپنے دوست اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈالتے۔ وہ تو ان کے ’مائی ڈیئر فیرنڈ‘ ہیں۔ وہ اگر ان سے کہیں کہ بھائی بہت ہو گیا اب تو یہ ظلم و جبر بند کرو تو ممکن ہے کہ قتل و غارت کا سلسلہ بند ہو جائے۔ لیکن انھوں نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ ایکادھ بار یہ ضرور کہا کہ فریقین کو مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنا چاہیے اور اس مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے میں ہے لیکن جس طرح پرزور انداز میں یہ بات کہنی چاہیے اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے وہ نہیں کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
جبکہ ہندوستان کی پالیسی فلسطین کے حق میں رہی ہے۔ جواہر لال نہرو ہوں یا اندرا گاندھی یا پھر راجیو گاندھی سب سے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی تھی اور اس بارے میں ہندوستان کی پالیسی کو جاری رکھا تھا۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہو گیا ہے۔ یوں تو کانگریس کو چھوڑ کر دوسری کوئی بھی پارٹی غزہ کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند نہیں کر رہی ہے۔ کبھی کبھار سماجوادی پارٹی یا شیو سینا یا آر جے ڈی کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی جاتی ہے لیکن وہ بھی موثر انداز میں اپنی بات نہیں رکھتیں۔ جبکہ کانگریس نے بارہا اس مسئلے کو اٹھایا اور اسرائیلی کارروائی کی مذمت کرنے کے ساتھ اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
تازہ ترین قدم سینئر کانگریس رہنما اور وائناڈ سے رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے اٹھایا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے اور حکومت ہند نے شرمناک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے ساٹھ ہزار سے زائد انسانوں کا قتل عام کیا ہے جن میں سے 18430 بچے ہیں۔ لاتعداد بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں فلسطین کے پانچ صحافیوں کی وحشیانہ قتل کی بھی مذمت کی اور اسے انتہائی گھناونا جرم قرار دیا۔ اسرائیلی بربریت کے سامنے جو لوگ سینہ تانے کھڑے ہیں انھیں وہ تشدد اور نفرت سے جھکا نہیں سکتا۔ یاد رہے کہ لاتعداد صحافی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج انھیں چن چن کر نشانہ بناتی ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی رپورٹوں میں اسرائیلی ظلم و ستم کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کے گھناونے کرتوت دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ اس سے قبل کانگریس کی سابق صدور سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا اور اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی تھی۔
Published: undefined
اسرائیل کی جارحیت اور ظلم و بربریت پر دنیا میں چیخ و پکار جاری ہے۔ حکومتوں کا رویہ الگ رہا لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسرائیلی کارروائی کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کرنے والے ملک امریکہ اور خود اسرائیل کے اندر بھی اس کارروائی کی مخالفت ہو رہی ہے اور جنگ بندی کرکے یرغمالوں کو رہا کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں بدترین قسم کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ایک حالیہ مضمون میں اسرائیلی اسکالر عمر برٹن نے، جو نسل کشی کے امور پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اور جو اسرائیلی فوج میں ملازمت بھی کر چکے،تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اسی اخبار میں ایک دوسرے اسرائیلی مضمون نگار اور اسکالر شمائیل لیجر مین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل نے امریکی میڈیا کے ساتھ مل کر غزہ کے شہریوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ ادھر امریکہ کے برعکس یوروپی میڈیا اب دو سال بعد یہ بات تسلیم کر رہا ہے کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتیں اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں جو بتائی جارہی ہیں۔
Published: undefined
گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق 380 مصنفین کے ایک گروپ نے اقوام متحدہ کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں تاریخ کی بدترین نسل کشی جاری ہے۔ علاوہ ازیں 800 افراد کے ایک گروپ نے، جس میں سابق جج بھی شامل ہیں، برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر کے نام لکھے خط میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے۔ مذکورہ گروپ نے اپنے خط میں مزید کہا کہ اسرائیلی نسل کشی کی بڑی شہادت موجود ہے اور اسرائیلی وزیر دفاع کا حالیہ بیان انتہائی مایوس کن ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہم غزہ کا بالکل صفایا کر دیں گے۔ ڈبلن یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو فورڈ نے جو کہ بین الاقوامی قانون پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں، کہا ہے کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی بے پناہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 29 کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسرائیل ویانا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزیاں کر رہا ہے جس میں جنگ کے دوران کسی بھی ریاست کے شہری کی آزادی ،عظمت اور عزت کی ضمانت دی گئی ہے۔
لیکن ہندوستان کی حکومت کا رویہ اس عالمی موقف سے علیحدہ ہے۔ وہ غزہ میں فلسطینی جارحیت اور اس کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی کو بظاہر جائز ٹھہرا رہی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق عالمی اسلحہ ساز کمپنیاں اسرائیلی کارروائی کے آغاز کے بعد سے اس کو ہتھیار فروخت کرکے اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس نے اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کیے ہیں۔ یکم جنوری 2025 کو الجزیرہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جو ہندوستانی کمپنیاں اسرائیل کو ڈرون اور دیگر ہتھیار سپلائی کر رہی ہیں ان میں ”میونیشن انڈیا“ کے علاوہ گوتم اڈانی کی ”ایلبٹ ایڈوانسڈ سسٹم انڈیا“ شامل ہیں۔ یہ ہتھیار ظاہر ہے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہوں گے۔
Published: undefined
حالانکہ وزارت خارجہ یہ بیان دے چکی ہے کہ ہندوستان مذاکرات کے ذریعے فلسطین اسرائیل قضیے کو حل کرنے کے حق میں ہے۔ اس کے مطابق ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ اس کا حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے۔ یعنی اگر اسرائیلی مملکت قائم ہے تو فلسطینی مملکت بھی قائم ہو اور فلسطین ایک آزاد ملک بنے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت عملی طور پر اسرائیلی جارحیت کی حامی ہے۔ یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ اس نے حماس کے حملے کی مذمت تو کی لیکن غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت آج تک نہیں کی۔ حالانکہ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کے حق میں ہے تو اسے غزہ میں نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے۔ اسے ان اسباب کی تلاش بھی کرنی چاہیے جو اسرائیل کے اندر حماس کے حملے کا سبب بنے۔ آخر کیا وجہ رہی کہ حماس کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔
لیکن موجودہ حکومت نے اس پہلو پر غور کرنے کی کبھی زحمت نہیں اٹھائی۔ اگر وہ انسانیت میں یقین رکھتی ہے اور یقیناً رکھتی ہوگی تو اسے غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد بے قصور انسانوں کی ہلاکت پر غمزدہ ہونا چاہیے۔ غزہ میں خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں بچے مار دیے گئے۔ کتنے بچے اپاہج اور اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو گئے اس کی کوئی گنتی نہیں ہے۔ وہاں کے بچوں کی جو ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آرہی ہیں ان کو دیکھ کر کوئی بھی شخص دہل جائے گا اور ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی مذمت کرے گا۔ لیکن ہندوستان کی اس کارروائی کی مذمت نہیں کر رہی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined