DW

جولیان اسانج کو فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، برطانوی عدالت

اسانج کے وکیل ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے فروری میں دو روز تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران لندن ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ امریکی اہلکار وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو سزا دینا چاہتے ہیں۔

جولیان اسانج کو فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، برطانوی عدالت
جولیان اسانج کو فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، برطانوی عدالت 

برطانیہ کی ایک اعلیٰ عدالت کے حکم کے مطابق وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو اپنے خلاف جاسوسی کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ سے ملک بدر کر کے فوراً امریکہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔اس عدالتی حکم کو جولیان اسانج کی جزوی قانونی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل چھبیس مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہائی کورٹ کے دو ججوں نے آج کہا کہ اگر امریکی حکام نے اس بارے میں مزید یقین دہانیاں نہ کرائیں کہ امریکہ حوالگی کے بعد جولیان اسانج کے ساتھ کیا ہو گا، تو وہ اسانج کی ان کی ممکنہ ملک بدری کے خلاف ایک نئی قانونی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لیں گے۔

Published: undefined

قانونی ماہرین کے مطابق لندن ہائی کورٹ کے ججوں کا یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وکی لیکس کے بانی کی برطانیہ سے ممکنہ ملک بدری اور امریکہ حوالگی کے لیے وہ عدالتی جنگ مزید طویل ہو جائے گی، جسے پہلے ہی ایک عشرے سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ لندن ہائی کورٹ کے ججوں نے آج 26 مارچ کو اپنا حکم سناتے ہوئے اس کیس کی اگلی سماعت 20 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

Published: undefined

ہائی کورٹ کے ججوں وکٹوریہ شارپ اور جیریمی جانسن نے حکم دیا کہ امریکی حکام کو اس عدالت میں اس بارے میں مزید دستاویزی یقین دہانیاں پیش کرنا چاہییں کہ اسانج کے ساتھ امریکہ میں کیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں اسانج کی ان کی ممکنہ ملک بدری کیے خلاف ایک نئی اپیل ان بنیادوں پر سماعت کے لیے منظور کر لی جائے گی کہ امریکہ میں ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی کی جائے گی اور ممکنہ طور پر انہیں سزائے موت بھی سنا دی جائے گی۔

Published: undefined

اسانج کے وکیل کا موقف

اس کیس کی سماعت کے دوران جولیان اسانج کے وکیل ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے فروری میں دو روز تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران لندن ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ امریکی اہلکار وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو اس لیے سزا دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ''امریکی حکومت کے ایما پر کی جانے والی ان مجرمانہ سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا تھا، جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔‘‘

Published: undefined

جہاں تک جولیان اسانج کے حامیوں کا تعلق ہے تو ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں اور انہیں امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ جولیان اسانج نے جو لاکھوں دستاویزات افشا کی تھیں، وہ امریکی فوج کی ان ''بداعمالیوں‘‘ کے بارے میں تھیں، جن کی وہ عراق اور افغانستان میں مرتکب ہوئی تھی اور جن کا منظر عام پر آنا عوامی مفاد میں تھا۔

Published: undefined

امریکی حکومت کی دلیل

جولیان اسانج کی برطانیہ سے ممکنہ ملک بدری کے خلاف ان کے وکلاء کا یہ موقف بھی ہے کہ وکی لیکس کے بانی کے خلاف امریکی استغاثہ کے محرکات سیاسی نوعیت کے ہیں اور امریکہ میں ان کے خلاف ممکنہ طور پر آئندہ کی جانے والی کوئی بھی قانونی کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نہیں ہو گی۔

Published: undefined

اس کے برعکس امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسانج نے جو کچھ کیا، وہ ایک صحافی کی پیشہ وارانہ مصروفیات سے بہت دور کی بات تھی۔ مزید یہ کہ امریکی استغاثہ کے بقول اسانج نے امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے حصول کی کوشش کر کے، انہیں چرا کر اور پھر بلاامتیاز منظر عام پر لا کر بہت سی بےقصور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined