DW

ڈپریشن کی وجہ سیروٹونین کی کمی نہیں، نئی تحقیق

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زندگی میں برے واقعات اور ان سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات، ڈپریشن پر گہرے اثرات کے حامل ہیں۔

ڈپریشن کی وجہ سیروٹونین کی کمی نہیں، نئی تحقیق
ڈپریشن کی وجہ سیروٹونین کی کمی نہیں، نئی تحقیق 

ڈپریشن کی وجہ عموماﹰ دماغ میں سیروٹونین کی کم سطح کو قرار دیا جاتا رہا ہے، تاہم ایک تازہ تحقیق میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ڈپریشن کا نیورو ٹرانسمیٹر سیروٹونین سے کوئی زیادہ لینا دینا نہیں ہوتا۔آپ یقیناﹰ ڈپریشن کی وجہ سمجھنے کے لیے 'کیمیائی عدم توازن کا نظریہ‘ استعمال کرتے رہے ہوں گے۔ اس نظریے کے مطابق دماغ میں نیوروٹرانسمیٹر سیروٹونین یا 5-HT کی سطح میں کمی ڈپریشن کے مرض کا باعث بنتی ہے۔

Published: undefined

اس نظریے کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہوا، جب ڈاکٹرز نے موڈ بہتر کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ سیروٹونین کی سطح میں اضافہ کر کے کسی مریض کا موڈ بہتر کیا جا سکتا ہے۔ تب سے اسے ڈپریشن کی سادہ سی وضاحت سمجھ لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر ڈپریشن کے علاج کے لیے ایس ایس آر آئی (سیلیکٹیو سیروٹونین ریوپٹیک اِنہیبیٹر) ادویات مثلاﹰ پروزیک دی جانے لگی جو دماغ میں سیروٹونین کی سطح میں اضافہ کرتی ہے۔ تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے مانا جانے والا یہ نظریہ اس پیچیدہ معاملے کا درست انداز نہیں۔

Published: undefined

سیروٹونین کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سیروٹونین کی سطح میں کمی کے ڈپریشن کی بیماری سے کسی تعلق کے 'کوئی واضح شواہد نہیں‘ ملے ہیں۔ اس مطالعے میں 361 سائنسی مطالعاتی رپورٹوں کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن اور خون میں سیروٹونین کی سطح کے درمیان کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا۔ مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محققین کو ڈپریشن کے حامل افراد اور عام افراد کے دماغوں میں سیروٹونین ریسپٹرز اور ٹرانسپورٹرز کی موجودگی کے درمیان کوئی فرق نہیں ملا ہے۔

Published: undefined

یونیورسٹی کالج لندن کے محقق اور کنسٹلٹنٹ ماہر نفسیات مائیکل بلوم فیلڈ کے مطابق، ''ڈپریشن کی کئی علامات ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب تک میں نے ایساکوئی واقعی سنجیدہ سائنسدان دیکھا ہو، جو ڈپریشن کی وجہ ایک سادہ سے کیمیائی عدم توازن کو سمجھتا ہو۔‘‘ گو ماہرین اس مطالعاتی رپورٹ کے نتائج پر حیران نہیں ہیں، تاہم کئی افراد سیوٹونین کے ڈپریشن میں کردار سے متعلق ان نتائج سے بالکل بھی اتفاق نہیں کر رہے۔

Published: undefined

بلوم فیلڈ کے مطابق، ''ممکن فقط یہ ہے کہ بعض افراد میں بعض طرز کے ڈپریشن میں شاید کہیں سیروٹونین نظام میں اونچ نیچ سے ان کی ڈپریشن کی علامات پر کچھ فرق پڑتا ہو۔ تاہم اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ ڈپریشن جیسے معاملے کو ایک سادہ سے کیمیائی عدم توازن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرنا، طبی تصور میں بالکل کوئی معنی نہیں رکھا۔‘‘

Published: undefined

ڈپریشن کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹ مؤثر نہیں

اس تازہ مطالعاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پروزیک طرز کی ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات جو دماغ میں سیروٹونین کی سطح کم ہونے سے روکتی ہیں، ڈپریشن کے علاج کے طور پر استعمال نہیں کی جانا چاہییں۔ رپورٹ کے مطابق یہ ادویات ڈپریشن کے علاج کے لیے بالکل بھی کارآمد نہیں ہیں، خصوصاﹰ اگر کسی مریض کو درمیانے یا شدید درجے کے ڈپریشن کا مرض لاحق ہو۔ مطالعاتی رپورٹ کے محققین نے لکھا ہے کہ کیمیائی عدم توازن کا نظریہ علاج کی تکمیل کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور یوں کسی شخص کے عمر بھر ان ادویات پر انحصار کا راستہ کھل جاتا ہے۔

Published: undefined

دوسری جانب یو سی ایک جینیٹک انسٹیٹیوٹ برطانیہ سے وابستہ اعزازی پروفیسر ڈیوڈ کُٹریس نے اس مطالعے کے نتائج پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ شدید ڈپریشن میں مبتلا افراد کی ادویات کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہیے: ''یہ بہت واضح ہے کہ ڈپریشن کی بیماری دماغ کی فعالیت میں کسی نہ کسی خلل کا نتیجہ ہے، ہم فی الحال اس کے اصل محرکات سے واقف نہیں ہیں، مگر اینٹی ڈپریسنٹ شدید ڈپریشن میں مبتلا افراد کے لیے مناسب علاج ہیں۔‘‘

Published: undefined

ڈپریشن کیوں ہوتا ہے؟

یہ نئی تحقیق یہ تو بتاتی ہے کہ سیروٹونین کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم اس کا کوئی متبادل فراہم نہیں کرتی۔ اس تازہ رپورٹ کے مطابق ڈپریشن ایک پیچیدہ حالت ہے، جس کے محرکات کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زندگی میں برے واقعات اور ان سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات، ڈپریشن پر گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ ماہرین نے دماغی تناؤ کو بھی ڈپریشن کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined