زیادہ سوچنا ایک بیماری ہے

زیادہ سوچنا اور سوچتے چلے جانا ایک بیماری ہے۔ ہمارے ارد گرد اور شاید ہم بھی اس کا کسی حد تک شکار ہیں۔ موسم کی تبدیلی تو انسان کی صحت متاثر کرتی ہے۔ لیکن سوچوں کا حاوی ہونا دماغی صحت متاثر کرتا ہے۔

زیادہ سوچنا ایک بیماری ہے
زیادہ سوچنا ایک بیماری ہے
user

Dw

زیادہ سوچنا اور پریشان رہنا آپ کو کسی بیماری میں بھی مبتلا کرسکتا ہے۔ میں بھی ان دنوں اس کا شکار رہی ہوں۔ جب کچھ مسائل حل ہونے کی بجائے بگڑتے ہی چلے گئے تو دواؤں کے ساتھ مضبوط قوت ارادی نے بھی ساتھ دیا۔ مزید یہ کہ قدرتی ماحول میں کی گئی میڈیٹیشن اور سیرو سیاحت کے کچھ دن اس کو پچھاڑنے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ حقیقت تو یہی ہےکہ اگر آپ کسی چیز کے متعلق مسلسل سوچتے رہیں گے توکسی صورت مثبت نہیں رہ سکیں گے۔

کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ زیادہ سوچنا کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے بہت اچھا ہو گا، جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جب آپ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو اپنے لیے مسائل خود پیدا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ مگر اگر یہی سوچنا حد سے تجاوز کر جائے یا پھر انسان ماضی کی سوچوں سے نہ نکل پائے، ایک بار گزر گئے واقعہ کو کیا، کیوں اور کیسے کی بنیاد پر مسلسل سوچتا جائے تو پھر اس کو سوچنا نہیں زیادہ سوچنا کہتے ہیں۔ یعنی اوور تھنکنگ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ایک بیماری ہے اور ایک تسلیم شدہ عارضہ ہے۔


جب آپ بہت زیادہ سوچتے ہیں تو آپ اپنے ذہن کو کسی بھی ایک نقطے پر مرکوز نہیں کر پاتے۔ کام کی جانب آپ کی توجہ نہیں رہتی۔ فیصلہ کرنے کی کوشش میں گھنٹوں ضائع کر دیتے ہیں اور ایسے میں وہ قیمتی وقت گنوا دیتے ہیں، جو آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مثلا اگر آپ کے باس نے آپ کی کسی رپورٹ کی خامی کی وجہ سے آپ کو ڈانٹ دیا ہے تو آپ فورا سب سے پہلے خود کو کوستے ہیں، پھر یہ سوچتے ہیں کہ اگر اگلی مرتبہ بھی رپورٹ میں کوئی خامی ہوئی تو باس جاب سے نکال دے گا، پھر میرا کیا ہوگا، گھر کا خرچہ کیسے چلے گا، سب کچھ مینیج کیسے ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اوور تھنکنگ کے زمرے میں آتا ہے۔

اوور تھنکنگ ایک ذہنی کیفیت اور بیماری ہے، جس کو ماہرین نفسیات مانتے بھی ہیں اور اس کا علاج دوا سے بھی کرتے ہیں۔ لیکن حقیقتا یہ بہت سی ایسی ذہنی بیماریوں کی جانب انسان کو لے جاتی ہے، جس کا علاج ابتدائی مراحل میں ہی مشکل ہے مثلا ڈپریشن، پی ٹی ایس ڈی، او سی ڈی شامل ہیں۔ زیادہ سوچنے کی کیفیت اور ذہنی بیماری کی علامات تقریبا یکساں ہی ہوتی ہیں یا یوں کہیے کہ ہر ذہنی بیماری کا نقطہ آغاز زیادہ سوچنا ہے۔


سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں اوور تھنکنگ کو کیسے پہچان پائیں گے۔ ایسا شخص جو اوور تھنکنگ کا شکار ہوگا وہ اپنے ماضی سے جڑے ہر اچھے یا برے واقعے کو بار بار دھراتا رہے گا۔ واقعات اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ تمام اچھے واقعات اس کی نظر میں اتفاقی ہوئے ہیں جبکہ تمام برے واقعات کی وجہ وہ خود کو ٹھہراتا ہے۔ اور اس کے لیے وہ خود کو بار بار الزام دیتا ہے۔ مزید یہ کہ اسی بنیاد پر مستقبل کے واقعات کی عمارت بھی کھڑی کر لیتا ہے اور اس کی ایک ایک اینٹ منفیت سے جوڑتا جاتا ہے۔

دوسری اہم بات اکثر یہ لوگ جب بالکل فارغ ہوتے ہیں، تب یہ بہت زیادہ سوچتے ہیں اور عموما ایسا سونے سے قبل ہوتا ہے۔ ذہن پر حاوی اوور تھنکنگ کی وجہ سے ٹھیک سے سو نہیں پاتے یا پھر سوتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں نیند کی کمی اور ذہنی دباؤ ان کو ڈپریشن کی طرف دھکیلنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں سے ملنے سے گھبراتے ہیں کیوں کہ زیادہ سوچنے کی وجہ سے ان کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہوتا ہے۔ اور ملاقات کے بعد سارا وقت اسی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں، کہ یہ کیوں کہا، وہ کیوں نہیں کہا، ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، ویسا نہیں کہنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ ہر وقت خوف، بے اعتمادی اور جسمانی تھکن طاری رہتی ہے۔


تقریبا تمام ذہنی امراض کا علاج بیمار شخص کی قوت ارادی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اس سے جان چھڑوانا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں دوا کے ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دوا تو ڈاکٹر دے دیتے ہیں، دعا ہمیں کرنا پڑتی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہم اوور تھنکنگ سے جان چھڑوانے کے لیے کر سکتے ہیں۔ مثلا اپنی تمام تر سوچیں کسی ڈائری یا پیپر پر لکھیں دوسرے لفظوں میں اپنے دماغ کا غبار کاغذ پر نکال دیں۔ پھر اس میں سے مسائل اور مشکلات الگ الگ کر دیں۔ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو مضبوط کریں۔ پھر ان میں سے مسائل کا حل بھی لکھیں۔ تاکہ جو سوچیں پریشان کر رہی ہیں ان کا حل نکل سکے۔ یہ طریقہ عموما ماہرین نفیسات بھی بتاتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے آپ کو کسی تخلیقی کام میں مصروف کر لیں۔ ارادی طور پر لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کریں۔ کسی نے کچھ بھی کہا ہو اس کا پوشیدہ مطلب مت نکالیں، کیونکہ پہلے تو مطلب نکالنا پریشان کرے گا پھر اگر آپ نے منفی مطلب نکالا ہے تو اس کی بنیاد پر کھڑی منفیت کی عمارت آپ کو پریشان کرے گی۔


اپنی توجہ بٹائیں۔ میڈیٹشن کریں، اگر ممکن ہو تو سیر وسیاحت کے لیے نکل جائیں۔ اپنی زندگی کو خود سنوارنے کی کوشش کریں دوائیں بھی اثر کریں گی لیکن جو ہمت یا کوشش اس میں سے نکلنے کی آپ نے خود کی ہو گی وہ آپ کے کام آئے گی۔ ایک انگریزی کہاوت ہے کہ What you can not change is yesterday, what you don't know is tomorrow. What you have is today that is why it is called present.

اس لیے حال میں رہنا سیکھیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جانے انجانے اوور تھنکنگ کا شکار ہیں اور اس کی ایک عمومی وجہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ اگر کسی سے ماضی میں کچھ غلط ہو گیا ہے تو اس کو بار بار یاد دلا کر سوچنے پر مجبور کر دینا عام ہے۔ اس لیے خود کو مثبت سرگرمی میں مصروف کریں اور حال میں جینا شروع کریں۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔