ثقافت

جنگ زدہ ملک لیبیا میں صوفی ثقافتی مقامات کی تباہی

ڈکٹیٹر معمر القذافی کے سن 2011 میں زوال کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ ابھی تک لیبیا میں سکیورٹی کے شدید مسائل ہیں اور مسلح کارروائیوں میں تاریخی ورثے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

جنگ زدہ ملک لیبیا میں صوفی ثقافتی مقامات کی تباہی
جنگ زدہ ملک لیبیا میں صوفی ثقافتی مقامات کی تباہی 

لیبیا سمیت قریب قریب سارے شمالی افریقی مسلم ممالک میں صوفی روایت کا سلسلہ سولہویں صدی عیسوی سے پہلے شروع ہوا۔ سولہویں صدی کے ایک بزرگ عبدالسلام الاسمر کی لیبیا اور قریبی ملکوں میں بہت شہرت تھی اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ تعداد اب بھی بہت بڑی تعداد میں خیال کی جاتی ہے۔

Published: undefined

ان کی قائم کردہ مذہبی درسگاہ، ان کے دور سے مختلف علاقوں کے مسلمان علماء کی علمی استعداد بڑھانے میں مددگار رہی ہے۔ الاسمر کے عقیدت مندوں کے سلسلے کو صوفی ازم سے وابستہ کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

الاسمار کا زاویہ

عربی زبان میں زاویہ سے مراد صوفی اور مذہبی انسٹیٹیوٹ یا درسگاہ لی جاتی ہے۔ شمالی افریقہ صوفی سلسلے کے افراد ایسے زاویوں میں دی جانے والی تعلیم کا درجہ یونیورسٹی کے مساوی بھی خیال کرتے ہیں۔ مشہور مؤرخ فتحی الزرخانی نے الاسمر کے زاویے کو مصر کے شہر قاہرہ میں قائم جامعہ الازہر کے مساوی قرار دیا۔

Published: undefined

لیبیائی شہر زلیتن میں واقع جامعہ الاسمریہ الاسلامیہ میں کئی ذیلی اداروں میں سائنس، طب اور دوسرے علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے الاسمریہ اسلامک یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی پرشکوہ مسجد کے مینار میں متحارب فریقین کی چلائی ہوئی گولیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔

Published: undefined

یہ زاویہ سن 2012 میں انتہا پسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے بعد پورے چھ سال تک بند رہا اور سن 2018 میں اس میں تعلیم و تدریس کے سلسلے کو خاموشی اور ڈھکے چھپے انداز میں شروع کر دیا گیا ہے۔

Published: undefined

یہ امر اہم ہے کہ سلفی عقیدے کے انتہا پسندوں نے شام، عراق، افغانستان اور پاکستان میں کئی صوفیوں کے مزارات کو بارود سے اڑانے سے گریز نہیں کیا۔ کئی تاریخی مزارات کی تعمیر نو کے سلسلے جاری ہیں۔

Published: undefined

جنگ زدہ لیبیا میں صوفی مقامات کی تباہی

پچھلی ایک دہائی میں جنگی حالات کی وجہ سے پانچ سو تیس سے زائد صوفی کلچرل مقامات کو جزوی یا مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ برس ساحلی شہر سرت میں صدیوں پرانے ایک تاریخی صوفی مقام المستغر باللہ سینٹر کی مسجد اور عمارت کو بلڈوزروں سے مٹا دیا گیا تھا۔

Published: undefined

لیبیا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اسامہ بن ہامیل کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی تباہی باعث حیرت نہیں کیونکہ یہ ملک زوال کی گہرائیوں میں گِر چکا ہے۔ ہامیل کے مطابق المستغر باللہ سینٹر کی لائبریری میں چار ہزار قدیمی نایاب کتب کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال پرانے مخطوطے بھی اُس وقت راکھ ہو گئے جب اس مرکز میں انتہا پسند عقیدے کے عسکریت پسندوں نے آگ لگائی گئی اور پھر اسے منہدم کر دیا تھا۔

Published: undefined

جامعہ الاسمریہ پر عسکری پسندوں کی کارروائی

اگست سن 2012 میں سلفی عقیدے کے حامل مسلح انتہا پسندوں نے جامعہ الاسمریہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ انہوں نے اس کو بارود سے اڑانے کی بھی کوشش کی اور اس دہشت گردانہ کارروائی میں مدرسے کے ایک حصے کو شدید نقصان پہنچا۔

Published: undefined

انتہا پسندوں نے لائبریری کی کتابیں جلانے کے علاوہ بہت ساری چوری بھی کی تھیں۔ اس حملے میں صوفی عبد السلام الاسمر کے مقبرے کا بھی شدید نقصان ہوا تھا۔اب صوفی عقیدت مند ایک مرتبہ پھر سے اس تاریخی درسگاہ کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔ دستکار اس مدرسے کی زیبائش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان ہنر مند افراد کی کوشش ہے کہ اس درسگاہ کے قدیمی حسن کو بحال کیا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined