فکر و خیالات

آخر کہاں ہے ریوالڈو؟

ایک ہاتھی لاپتہ ہو جاتا ہے۔ اس خبر سے نیلگری میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے، کیونکہ یہاں جنگل اور انسان آپس میں ایک نازک ایکو سسٹم میں الجھے رہتے ہیں۔ یعنی یہ بات محض ایک ہاتھی کی نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ریوالڈو کی فائل فوٹو، بشکریہ&nbsp;https://www.nationalheraldindia.com/</p></div>

ریوالڈو کی فائل فوٹو، بشکریہ https://www.nationalheraldindia.com/

 

کچھ مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کی پہچان ایک پرسکون اور تنہائی بھرے ماحول کے طور پر ہوتی ہے۔ نیلگری ایسی ہی ایک جگہ ہے۔ یہاں تنہائی اور سکون کا مطلب کسی چیز کی کمی نہیں، بلکہ ایک دائمی تکمیل ہے۔ صدیوں قدیم جنگلات کی سرسراہٹ، گھاس کے میدانوں میں روشنی کا آہستہ آہستہ پھیلنا اور اسے صدیوں سے راستوں کے طور پر استعمال کرتا ہاتھیوں کا جھُنڈ۔ لیکن گزشتہ ماہ سیگور پٹھار پر ایک مختلف طرح کی خاموشی چھا گئی، جیسے کسی جانی پہچانی دھن میں سے ایک سُر (ساز) غائب ہو گیا ہو۔

Published: undefined

ایرولا ٹریکر، فاریسٹ گارڈ، تحفظِ ماحول کے کارکنان، پودے لگانے والے ملازمین، ریسورٹ اسٹاف، گاؤں والے، حتیٰ کہ جنگل کی خطرناک تنگ پٹیوں میں گشت کرنے والی پولیس فورس تک... سبھی فکر اور وابستگی کے ملے جلے احساس کے ساتھ ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں ’ریوالڈو کہاں ہے؟‘

Published: undefined

یہ ریوالڈو کون ہے؟ ایک 54 سالہ لمبے دانتوں والا ہاتھی، جس کی سست رفتار اور شاہانہ انداز سے بھرپور موجودگی جنگل اور آبادی دونوں کو ایک عجیب سا سکون دیتی تھی۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے، وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ جو ریوالڈو باقاعدگی سے یہاں وہاں دکھائی دیتا تھا، انسانوں کے آس پاس بھی پُرسکون رہتا تھا اور جانی پہچانی جگہوں پر بار بار نظر آتا تھا، وہ اب کہیں نہیں، اور یہ بات اب علاقے کے لوگوں کو پریشان کرنے لگی ہے۔

Published: undefined

ہاتھی غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ یہ ان کی فطری زندگی کا حصہ ہے۔ وہ طویل فاصلہ طے کرتے ہیں، اپنی حدود بدلتے ہیں، ایسی کھائیوں اور وادیوں میں گم ہو جاتے ہیں جنہیں انسانی نظر آسانی سے نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ریوالڈو کا غائب ہونا کسی فطری واقعہ سے کہیں زیادہ، زندگی سے کسی اہم چیز کے جدا ہو جانے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ اس کی غیر موجودگی اتنی گہری کیوں لگتی ہے، سیگورہلّا ندی کے کنارے واقع ایک گھر اور اس میں رہنے والے اُس شخص سے سفر شروع کرنا ہوگا جس کی سوچ نے جنگل کے ساتھ اس کے رشتہ کو ایک نیا زاویہ دیا۔

Published: undefined

مصنف، فطرت شناس اور ابتدائی تحفظ ماحول کے مفکر ای. آر. سی. ڈیوڈر نے 1964 میں سیگورہلّا ندی کے کنارے ایک سادہ سا گھر بنایا ’چیتل واک‘۔ ٹائلس والی چھت، برآمدہ اور کھلے میدان کی طرف نکلنے والی پتھر کی سیڑھیوں والا یہ گھر نیلگری وادی کے کسی بھی دوسرے گھر جیسا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ گھر خاص تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں انسان جنگل پر خود کو مسلط نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی گزارے، اور اُن جانداروں کے لیے راستے کھلے چھوڑ دے جو کسی بھی انسان کے قدم رکھنے سے بہت پہلے سے یہاں گھومتے آئے تھے۔

Published: undefined

ڈیوڈَر کا ماننا تھا کہ اگر انسان جارحانہ برتاؤ نہ کرے تو جنگلی جانور بھی شکاری یا دشمن جیسا ردِعمل نہیں دیں گے۔ انہوں نے ہاتھیوں، ہرنوں، یہاں تک کہ درندہ جانوروں کو بھی اپنے گھر کے آس پاس بلا روک ٹوک آنے جانے دیا۔ اپنی زمین کو گھیر کر بند نہیں کیا۔ اُن خوف والے جذبات سے پرہیز کیا جو جنگل کے ساتھ انسانوں کے بیشتر برتاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس انوکھی مہمان نوازی کو پہچانتے ہوئے جنگل نے انہیں اپنا لیا۔ ہاتھی بے خوف ان کے گھر کے آس پاس گھومنے لگے۔ ہرن ان کے برآمدے تک آ جاتے۔ تیندوے وہاں سے ایسے گزرتے جیسے وہ علاقہ انہی کا ہو۔

Published: undefined

اسی ماحول میں ایک چھوٹا ہاتھی وہاں باقاعدگی سے دکھائی دینے لگا۔ گزرتے برسوں کے ساتھ وہ اس علاقہ کے سب سے جانے پہچانے ہاتھیوں میں سے ایک بن گیا۔ ڈیوڈَر کے بیٹے مارک نے اس کا نام رکھا ’ریوالڈو‘۔ 19 اکتوبر 2013 کو جب مارک ڈیوڈَر کا انتقال ہوا تو چیتل واک اور سیگور پٹھار کے ہاتھیوں کے درمیان کا رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔ مارک کو اپنے والد سے صبر اور خاموشی سے دیکھنے پرکھنے کی قوت وراثت میں ملی تھی، اور وہ چیتل واک کی بنیادی سمجھ کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کرنے والا آخری شخص تھا۔ جان پہچان والے انسان کی موجودگی نہ ہونے کے باوجود ریوالڈو چیتل واک کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ وہ اکثر اس کے کناروں پر آ کر رک جاتا، جیسے ڈیوڈَر کے باہر آنے کا انتظار کر رہا ہو۔ مقامی لوگ آج بھی بات کرتے ہیں کہ کیسے ایک دیو ہیکل ٹسکر (بڑے دانتوں والا ہاتھی) بار بار آ کر چیتل واک کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا تھا، جو اب نہیں کھلتا تھا۔

Published: undefined

مارک کی موت کے آس پاس ہی ریوالڈو کو ایسی چوٹ لگی جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ کسی شکاری کے جال میں پھنس جانے سے یا جنگلی سور کے لیے لگائے گئے کسی دیسی بم کی زد میں آ جانے سے اس کی سونڈ کا سرا کٹ گیا۔ اس کے لیے کھانا، بڑے پھلوں کو پکڑنا اور ٹہنیاں توڑنا مشکل ہو گیا۔ پانی پینے کی حالت بھی نہیں رہی۔ ایک ہاتھی کے لیے زندہ رہنے کے تقریباً ہر کام میں سونڈ ضروری ہوتی ہے اور ریوالڈو اب اس معاملے میں معذور ہو چکا تھا۔

Published: undefined

بعد کے برسوں میں شاید چیتل واک کے سکون کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ریوالڈو انسانی آبادیوں کے آس پاس آنے لگا۔ اس نے وہ جھنجھلاہٹ نہیں دکھائی جو انسانی سرگرمیوں سے پریشان ہونے پر ہاتھیوں میں دیکھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس وہ پورے ضبط کے ساتھ رہتا اور گاؤں والے بھی اسے سبزیاں اور پھل وغیرہ کھانے کو دے دیتے۔ جیپ سے گزرنے والے سیاح اسے تھوڑا بہت کھانا دے دیتے۔ ریسورٹ میں کام کرنے والے اسے کھانا دے کر مصروف رکھتے تاکہ اس دوران سیاح تصویریں کھنچوا سکیں۔

Published: undefined

انجانے میں انسانوں نے جنگل اور انسانی آبادیوں کے درمیان کی سرحدوں کو دوبارہ گہرا کر دیا۔ جانوروں کی عادت جو بدلی، وہ نفرت کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط ہمدردی کی وجہ سے تھی۔ 2021 تک ریوالڈو انسانی بستیوں کے پاس اتنا زیادہ دکھائی دینے لگا کہ محکمۂ جنگلات نے یہ کہتے ہوئے کہ بستی کے لوگ ریوالڈو کو تربیت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے ایک چھوٹی سی جگہ میں بند کر دیا۔ اس فیصلے سے زبردست بحث چھڑ گئی۔ تحفظ ماحول کے کارکنوں نے دلیل دی کہ ریوالڈو کو انسانوں کے برتاؤ کی سزا دی جا رہی ہے۔ مقامی لوگوں کو دھوکہ محسوس ہوا۔ جو ریسورٹس کبھی ریوالڈو کو کشش سمجھتے تھے، وہ اسے ہٹانے کے لیے زور دینے لگے۔ آخرکار ریوالڈو کو چھوڑ دیا گیا۔ اس میں نمایاں بہتری آئی تھی۔ اس نے اپنے راستے بدل لیے، بستیوں سے بچنے لگا اور دوبارہ جنگلی جھُنڈوں میں شامل ہو گیا۔

Published: undefined

ریوالڈو کو آخری بار اکتوبر 2025 میں تھپّاکاڈو کے پاس دیکھا گیا۔ محکمۂ جنگلات کے ملازمین نے اسے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ چھوٹے ہاتھی بھی ہوتے تھے۔ پھر وہ اچانک غائب ہو گیا۔ ریوالڈو کے غائب ہونے کے پہلے ہفتہ میں لوگوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ دوسرے ہفتہ میں سوال اٹھنے لگے، اور تیسرے ہفتہ میں ریوالڈو کو تلاش کرنے کے لیے ڈرون پروازیں شروع کی گئیں۔ پھر یہ بات محض ایک ہاتھی کے لاپتہ ہونے کی نہیں رہی بلکہ نیلگری کے حالات کی تھی۔

Published: undefined

نیلگری کے کنارے والے علاقوں میں ریسورٹس پھیل گئے ہیں۔ ہاتھیوں کے روایتی راستوں پر باڑ لگا دی گئی ہے۔ ٹریفک بڑھ گیا ہے۔ مدوملائی کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات ہو گئی ہیں۔ بے لگام سیاحت اور رئیل اسٹیٹ کی لالچ نے ماحولیاتی بفر زون کو نگل لیا ہے۔ ریوالڈو جیسے بوڑھے ہاتھی کے لیے خاص طور پر مشکلات زیادہ ہیں۔ ممکن ہے اس نے اپنا جنگلی پن دوبارہ پا لیا ہو، لیکن اب جنگل ہی ویسا نہیں رہا۔

Published: undefined

بہرحال، حکام کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی لاش نہیں ملی اور نہ ہی ایسے کوئی اشارے ملے ہیں کہ جھُنڈ کو کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہاتھی ہفتوں تک غائب رہ سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریڈیو کالر ناکام ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود تشویش برقرار ہے۔ جنگل نے اپنی خاموشی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے، اور یہ خاموشی ایسی ہے جسے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ریوالڈو کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا میں کئی مشکل سوالات ابھر آئے ہیں، مثلاً ہاتھیوں کے رہنے کی جگہ ختم کرتے ہوئے انہیں کیسے ’بچایا‘ جا سکتا ہے؟ بے لگام ترقی میں تحفظ کی کتنی گنجائش ہے؟ سکڑتے جنگل کے درمیان انسان اور جانور کا ساتھ ساتھ رہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

Published: undefined

اب پورا علاقہ ریوالڈو کا انتظار کر رہا ہے۔ محکمۂ جنگلات کے اہلکار سورج نکلنے سے پہلے ہی مہم پر نکل جاتے ہیں۔ قبائلی ٹریکر اس کے نشانات تلاش کر رہے ہیں۔ چائے کی دکانوں میں ریوالڈو کے بارے میں حال کے صیغے میں بات ہو رہی ہے۔ امید برقرار ہے! انسانی نگاہوں سے بہت دور، شاید کسی وادی میں وہ ٹسکر اس گھر سے جڑی یادوں کو سنبھالے ہوئے آہستہ آہستہ شاہانہ انداز میں گھوم رہا ہوگا، جس نے ہمیشہ اس کا کھلے بازوؤں سے استقبال کیا۔ یا پھر شاید وہ ہم سے بہت، بہت دور ویسے ہی چلا گیا ہو جیسے اکثر بوڑھے ہاتھی چلے جایا کرتے ہیں... خاموشی سے، بغیر کسی ڈرامے کے!

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined