فکر و خیالات

’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘

ایران اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی مداخلت جنگ کو طول دے سکتی ہے، جبکہ مظلوم کو انصاف ملنا ضروری ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے، جس میں امریکہ اسرائیل کی طرفداری کھلے طور پر کر رہا ہے۔ امریکہ اور امریکی صدر کو ایسا لگ رہا ہے جیسے ایران کی تمام غلطی ہے اور اسرائیل دودھ کا دھلا ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو جائز ٹھہرانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ اسرائیل کی حماس سے جنگ جاری تھی کہ اسی دوران اس نے ایران پر اس وقت حملہ کر دیا جب امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیئر معاملے پر بات چیت جاری تھی اور حملے کے دو دن بعد عمان میں اس مذاکرات کا اگلا دور ہونا تھا۔

Published: undefined

اسرائیل نے ابتدائی حملوں میں اپنے کئی مقاصد حاصل کر لیے لیکن ایران کی جوابی کارروائی کے بعد وہ بوکھلا گیا، کیونکہ وہ اپنے لوگوں کی موت کو برداشت نہیں کر سکتا بلکہ دوسروں کے قتل کو جائز ٹھہراتا ہے۔ ایران نے جیسے ہی جوابی کارروائی کی اور اس میں چند اسرائیلی ہلاک ہونے کی خبر آئی، اسرائیل نے فوری طور پر امریکہ سے اس جنگ میں شامل ہونے کی گہار لگائی اور نتیجے میں امریکہ نے ایران کو دھمکی دینا شروع کر دی۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ امریکہ اسرائیل کی طرفداری کرتا نظر آیا، بلکہ مغرب کے وہ ممالک بھی اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہو گئے جنہوں نے ابھی حال ہی میں اسرائیل کے کردار پر سوال اٹھائے تھے۔ وجہ صاف ہے کہ سب کو معاشی فائدہ چاہئے، پھر غلطی کسی کی بھی ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے!

Published: undefined

عراق، لیبیا اور شام کا حال ہمارے سامنے ہے اور وہاں کے حکمرانوں پر کیا گزری، اس سے سب بخوی واقف ہیں۔ ان تینوں ممالک کے حکمرانوں میں سے صرف شام کے سابق صدر زندہ ہیں لیکن وہ بھی اپنے ملک میں نہیں بلکہ روس میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ان تینوں ممالک کے حکمرانوں یعنی عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی اور شام کے بشار الاسد کے خلاف ذرائع ابلاغ ماحول بنانے میں کامیاب رہا تھا جبکہ ایران میں لاکھ حجاب اور اسلام کے خلاف ذرائع ابلاغ نے ماحول بنانے کی کوشش کی لیکن ان کو خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی اور اکثریت ایرانی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مغرب کی جانب سے وہاں عائد کی گئی پابندیاں اور اسرائیل کی فلسطین میں جاری جارحیت میں ایران کا کردار ہے۔

Published: undefined

زیادہ دور کی بات نہیں ہے لیکن جو چند جنگیں دیکھی گئی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر الگ الگ عالمی طاقتیں اپنی چودھراہٹ کو ثابت کرنے کے لئے جنگوں میں فریق بن جاتی ہیں، تو یہ جنگیں لمبے وقت تک کھچ جاتی ہیں۔ چاہے وہ ویتنام اور امریکہ کے مابین جنگ ہو، جو چودہ سال تک چلی، سوویت یونین کا ناکام افغانستان پر قبضہ، بعد میں امریکہ کا افغانستان پر ناکام قبضہ اور ابھی حال ہی میں روس یوکرین کی جنگ جس کے تعلق سے یہ کہا جا رہا تھا کہ یوکرین تو ایک دو روز کا مہمان ہے لیکن مغربی ممالک نے یوکرین کا کیا ہاتھ پکڑا وہ جنگ بھی ابھی تک جاری ہے۔

تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ جنگ بھی لمبی ہو سکتی ہے، اگر روس اور چین ایران کی پشت پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی چودھراہٹ کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ جنگ لمبی ہو سکتی ہے لیکن اگر اقتصادیات کے بل بوتے پر فیصلہ ہونے لگا تو یہ جنگ بہت جلد ختم ہو جائے گی اور اس کا فیصلہ بھی اسرائیل کے حق میں جائے گا جوکہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں لگتا۔

Published: undefined

بہرحال جنگ جلد ختم ہونی چاہئے اور ظالم کو اس کی سزا ملنی چاہئے اور مظلوم کو انصاف ملنا چاہئے۔ ساحر لدھیانوی نے جنگ کے تعلق سے ایک نظم تحریر کی ہے، جس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined