
علامتی تصویر / اے آئی
دنیا اور وقت میں جاری اتھل پتھل، غیر یقینی، الجھنوں اور دباؤ کے اس دور میں انسان کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کیا کیا جائے۔ جو فہم و بصیرت کبھی مددگار اور رہنما لگتی تھی، وہ اب ناکافی محسوس ہونے لگی ہے۔ حالات کے اس تیزی سے بدلتے منظرنامے میں اکثر لوگ، خاص طور پر وہ جو ایماندار اور حساس ہیں، بے عملی یا عمل سے کنارہ کشی کو بہتر سمجھنے لگے ہیں۔
وہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے خود کو الگ تو کر رہے ہیں، مگر کوئی مزاحمت نہیں کر رہے۔ یہ ایک طرح کی اجتماعی کمزوری ہے جس میں لوگ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاموشی کی پناہ میں جا چھپے ہیں۔ دنیا اور سماج ان کی سمجھ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ چپ رہنا ہی عافیت ہے۔ نتیجتاً ظلم، ناانصافی، تشدد اور جبر کے بڑھتے مظاہر پر دل تو تڑپتا ہے مگر زبان بند رہتی ہے۔
Published: undefined
یہ محض کسی جھگڑے یا مصیبت سے بچنے کی چال نہیں، بلکہ اپنی حساسیت، انصاف پسندی اور عقلِ سلیم کو مفلوج کر دینے جیسا رویہ ہے۔ بہت سے لوگ، جو کبھی دوسروں کی بھلائی کے خواہاں تھے، اب دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ ’وقت خراب ہے، خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔‘ اس طرح جینے کی آرزو اب صرف بچنے کی خواہش میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اسی خاموش قبولیت کا ایک اور چہرہ متوسط طبقہ ہے، وہ طبقہ جو کبھی سوال اٹھانے والا، جمہوریت کا ستون سمجھا جاتا تھا۔ آج وہی طبقہ، خاص طور پر اساتذہ اور تعلیمی طبقہ، نہ نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات پر بات کر رہا ہے، نہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری پر بڑھتے حملوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔
یہ سب اس سوچ کے تحت ہو رہا ہے کہ ’سوال کرنے یا مزاحمت کرنے سے کیا بدل جائے گا؟‘ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ’پھر جینے سے کیا بدلتا ہے؟‘ اگر جمہوریت کو درک ہوتے دیکھ کر بھی ہم کچھ نہ کریں تو کیا ہم واقعی زندہ ہیں؟ آج وہی متوسط طبقہ، جس نے جمہوریت کے سب سے زیادہ فائدے اٹھائے، خاموشی سے اسی جمہوریت کو بکھرتے دیکھ رہا ہے۔ یہ اخلاقی احسان فراموشی کی انتہا ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہ اجتماعی ذمہ داری اور سماجی شعور سے دستبرداری کا اعلان بھی ہے۔
Published: undefined
جب کسی معاشرے کے زیادہ تر لوگ یہ یقین کر لیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، کہ ان کا فریضہ صرف تماشائی بنے رہنا ہے، کہ ان کی واحد ترجیح اپنی ذاتی سلامتی ہے، تو ایسا معاشرہ دراصل بیمار ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ اپنے ضمیر، اپنے احساس اور اپنی عقل سے محروم ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ نہ خود کو بچا پاتا ہے، نہ اپنے اردگرد کی انسانیت کو۔
عام تاثر یہ ہے کہ حقیقت صرف ایک ہوتی ہے مگر اسے سمجھنے کے طریقے مختلف۔ لیکن دراصل ہر زاویۂ نظر ایک نئی حقیقت کو جنم دیتا ہے۔ ادب اور فن میں جو تخلیق ہوتی ہے، وہ صرف موجود حقیقت کا عکس نہیں ہوتی، بلکہ ایک نئی حقیقت کا اضافہ بھی کرتی ہے۔
فنکار اور ادیب اپنی تخیل اور مشاہدے سے وہ حقیقتیں تخلیق کرتے ہیں جو عام آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کام میں انسان اور سماج کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جو روایتی علم یا سیاست کے دائرے سے باہر رہ جاتے ہیں۔
Published: undefined
ٹھیٹر آرٹسٹ اور فلم ساز انامیکا حقسر کے ’حبیب تنویر یادگاری لیکچر‘ میں یہی باتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ ان کا عنوان تھا، ’بھارتیہ یتھارت واد کی بدلتی ورن مالا‘ (یعنی ہندوستانی حقیقت نگاری کی بدلتی زبان)۔ انہوں نے نہایت دلکشی اور فہم کے ساتھ بتایا کہ ہندوستانی تھیٹر میں حقیقت کو برتنے کے کتنے مختلف زاویے ہیں، چاہے وہ کلاسیکی متون کی نئی تعبیر ہو، لوک روایت سے مکالمہ ہو، یا جدیدیت کے نئے طریقوں کی آمیزش۔
انہوں نے حبیب تنویر، االقاضی، بو کارنت، بنسی کول، نیلم مان سنگھ، ایم کے رینا، رتن تھیام اور کئی دوسرے فنکاروں کے کام کو مثال بنا کر دکھایا کہ ہندوستانی تھیٹر میں حقیقت صرف ایک رخ کی نہیں، بلکہ کئی پرتوں اور تصادموں سے بنی ایک جیتی جاگتی دنیا ہے۔
Published: undefined
یہ سب مختلف حقیقتیں، جب باہم گفتگو کرتی ہیں، تو فن اور زندگی دونوں کو گہرائی اور وسعت عطا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی تھیٹر آج بھی اپنی معنویت برقرار رکھے ہوئے ہے — کیونکہ اس نے زندگی کی پیچیدگیوں، سوالوں اور اضطراب کے لیے ہمیشہ جگہ بنائے رکھی۔
انامیکا حقسر کی تربیت دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ اور ماسکو کے تھیٹر انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی۔ حال ہی میں ان کی بنائی فلم نے بھی اپنی تخلیقی جرات سے سب کو متاثر کیا ہے۔ وہ فن کو صرف اظہار کا ذریعہ نہیں مانتیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔
Published: undefined
شاعر منگلیش ڈبرال پر رسالہ ادبھاؤنا نے ایک مفصل خصوصی شمارہ شائع کیا ہے، جس میں ان کی شاعری، نثر، موسیقی سے تعلق اور رفاقت پر تقریباً پانچ سو صفحات کا خزانہ پیش کیا گیا ہے۔ پانچ برس بعد بھی ان کی تخلیقات اور شخصیت کی یاد زندہ ہے، جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ حساس فنکار وقت کے شور میں بھی مٹتے نہیں۔ مَنگلیش کی شاعری میں زندگی کے روزمرہ میں چھپی نرمی، سچائی اور اجتماعی احساس کی جھلک ملتی ہے۔
وہ سادہ زبان میں گہرے مفہوم بُننے والے شاعر تھے۔ ان کے یہاں جذبات یا خیالات کی کوئی فالتو آمیزش نہیں بلکہ ایک نفیس سادگی، ایک قابلِ لمس لے (ریدم) ہے، جسے ہم ’منگلیش لے‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ معمولی چیزوں کو شاعری کا مرکز بناتے تھے اور اسی میں ان کی انسان دوستی چھپی ہے۔
Published: undefined
ان کی شاعری میں وابستگی اور تخلیقی توازن کا خوبصورت امتزاج ہے۔ وہ نہ جذباتیت میں بہے، نہ نظریاتی بوجھ سے دبے۔ ان کے یہاں عقل اور احساس دونوں ہم آہنگ ہیں۔ ڈبرال کی شاعری کو دو روایات میں رکھا جا سکتا ہے، پہلی، عام انسان کی روزمرہ زندگی کو شعری معنویت دینا؛ دوسری، وہ روایت جس کی جڑیں مکتی بودھ، رگھویر سہائے اور دھومل تک جاتی ہیں، یعنی ظلم، تشدد، اور سماجی منافقت کی نشاندہی۔
منگلیش ڈبرال ان دونوں کے سنگم پر کھڑے شاعر تھے، جہاں انسانیت، احتجاج اور جمالیات ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ یہ پورا منظرنامہ، متوسط طبقے کی خاموشی، فنون میں حقیقت کی تلاش اور ڈبرال جیسے شعرا کی انسان دوستی، ایک ہی سوال کی طرف اشارہ کرتا ہے: کیا ہم صرف زندہ ہیں، یا جیتے بھی ہیں؟ کیا ہم تماشائی ہیں، یا سماج کے ذمہ دار شہری؟ اگر ہم اپنی چپ کو شعور کا لبادہ پہنا کر خود کو بے قصور سمجھنے لگیں، تو یہ جمہوریت نہیں، اس کا سوگ ہے۔
(مضمون نگار اشوک واجپئی ہندوستان کے معروف ادیب ہیں، ماخذ: thewirehindi.com)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined