امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ / آئی اے این ایس
ڈونالڈ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالے ہوئے آٹھ ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ ڈیموکریٹ امیدوار اور سابق نائب صدر کملا ہیرس ٹرمپ کو شکست دے دیں گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک بار پھر وہی منظر سامنے آیا کہ امریکی عوام نے ایک کاروباری شخصیت کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کیا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران "ماگا" یعنی "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں"، امیگریشن قوانین، اور جنگوں کو ختم کرنے جیسے موضوعات نمایاں رہے، مگر اب سب سے زیادہ بحث ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نافذ کردہ نئے محصولات یعنی ٹیرف پر ہو رہی ہے۔
Published: undefined
یہ ٹیرف بظاہر ماگا کے نعرے سے جڑا ہے، لیکن درحقیقت دنیا معیشت کے اصولوں پر چلتی ہے، اس لیے اس فیصلے کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔ ٹرمپ ایک کاروباری ہیں اور ہر معاملے میں فائدہ دیکھنے کے عادی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ امریکہ کا فائدہ سوچتے ہیں یا اپنا اور اپنے قریبی حلقے کا؟ مبصرین کی رائے ہے کہ ٹرمپ اکثر ذاتی اور مخصوص ساتھیوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے تعلقات ایلون مسک جیسے سرمایہ کاروں سے ہوں یا پاکستان کے ساتھ مبینہ طور پر بٹکائن کے تجارتی معاملات، ہر قدم میں ایک کاروباری حکمت عملی جھلکتی ہے۔
ٹرمپ اپنی پالیسیوں میں ہندوستان کو کبھی چین اور روس کی طرف دھکیلتے ہیں تو کبھی اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور کبھی خود تو کبھی اپنے وزراء کے ذریعہ ایسے بیانات دیتے ہیں جو ہندوستان کو تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس رویے سے واقعی ماگا کا مقصد پورا ہوگا؟ وقت ہی بتائے گا، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ٹرمپ کے اس رویے نے امریکہ کی گرفت کو کمزور کیا ہے اور عالمی منظرنامے پر اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔
Published: undefined
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔ اسی عرصے میں ہندوستان نے بھی روس کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کی جانب جھکاؤ بڑھایا۔ ہندوستان نے تقریباً اپنے تمام انڈے امریکہ کی ٹوکری میں رکھ دیے۔ اب جب ہندوستان دوبارہ روس کے ساتھ اپنے پرانے رشتے بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ اسے قابو میں رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ہندوستان فطری طور پر امریکہ اور اسرائیل کا قریبی ساتھی ہے، اس لیے اس کے مستقل طور پر امریکہ سے خفا رہنے کا کوئی امکان نہیں۔
ہندوستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ روس سے سستا تیل خریدنے کا فیصلہ ملک کے مفاد میں تو ضرور تھا، لیکن اس سے عام ہندوستانی عوام کو کوئی بڑا فائدہ نہیں پہنچا۔
Published: undefined
ٹرمپ کو بطور صدر یہ بات سمجھنی ہوگی کہ امریکہ کو محض کاروباری فیصلوں سے دنیا کے نقشے پر دوبارہ عظیم نہیں بنایا جا سکتا۔ طاقتور قومیں صرف کاروبار سے نہیں بلکہ مستقل اور واضح پالیسیوں سے اپنی جگہ قائم رکھتی ہیں۔ ٹرمپ اگر صرف کاروباری فائدے کے تناظر میں امریکہ کی قیادت کریں گے تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ امریکہ کے بارے میں منفی تاثر کم سے کم ہو۔
اب جبکہ ٹرمپ کا یہ دوسرا اور آخری دور صدارت ہے، انہیں اس سوچ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ یہ ان کی اقتدار کی آخری مدت ہے بلکہ انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس دور کو کس طرح تاریخی بناتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی قیادت کو صرف ذاتی اثر و رسوخ تک محدود رکھیں یا پھر امریکہ کو عالمی سطح پر دوبارہ باوقار مقام دلوائیں۔ تاریخ میں ان کا کردار اسی بنیاد پر یاد رکھا جائے گا۔ اگر انہوں نے امریکہ کے عالمی وقار کو مضبوط بنایا تو انہیں ایک کامیاب صدر کہا جائے گا، لیکن اگر وہ صرف کاروباری فائدوں تک محدود رہے تو ان کی میراث سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی۔
Published: undefined
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے سامنے ایک بڑا انتخاب کھڑا ہے کہ کیا وہ صرف اپنے دبدبے کو اہمیت دیں گے یا امریکہ کے دبدبے کو؟ اگر وہ واقعی "امریکہ کو دوبارہ عظیم" بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پرانی اور آزمودہ پالیسیوں کی طرف لوٹنا ہوگا، وہ پالیسیاں جو امریکہ کو ایک وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت بناتی تھیں۔ یہی چیلنج ہے، اور یہی ان کا اصل امتحان ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined