سونیا گاندھی
نئی دہلی: کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے ’دی ہندو‘ اخبار کے اداریے میں شائع شدہ اپنے تفصیلی مضمون میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حالیہ حملے اور غزہ میں جاری انسانی بحران پر حکومتِ ہند کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کے خلاف جو حملہ کیا وہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یکطرفہ عسکریت پسندی کی ایک خطرناک مثال بھی ہے، جس کے سنگین علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سونیا گاندھی کے مطابق، انڈین نیشنل کانگریس نے ایران میں اسرائیلی بمباری اور ہدفی قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ ان حملوں کو انہوں نے اسرائیل کی ان پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جو حالیہ برسوں میں غزہ میں بھی دیکھنے کو ملی ہیں، جہاں عام شہریوں اور علاقائی استحکام کو نظر انداز کرتے ہوئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی کارروائیاں صرف مزید بدامنی اور تصادم کو جنم دیں گی۔
Published: undefined
مضمون میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی بات چیت کے پانچ دور مکمل ہو چکے تھے اور چھٹا دور طے شدہ تھا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو جارحانہ، شدت پسند اور امن دشمن قیادت کا نمائندہ قرار دیا، جس نے فلسطینی علاقوں میں آباد کاری، انتہا پسند جماعتوں سے اتحاد اور خطے میں مسلسل جنگی فضا قائم رکھی ہے۔
سونیا گاندھی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جو صدر کبھی امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں اور فوجی و صنعتی اتحاد کی مخالفت کرتے تھے، وہ اب انہی تباہ کن پالیسیوں کے حامی بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے خود اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ عراق میں جھوٹے دعووں کی بنیاد پر مسلط کی گئی جنگ کے سبب خطہ تباہی اور عدم استحکام سے دوچار ہوا۔
Published: undefined
مضمون میں دوہرے معیار کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیل خود ایک جوہری ریاست ہے جس پر کوئی بین الاقوامی روک نہیں، جبکہ ایران نے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سخت پابندیاں اور نگرانی قبول کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کو انہوں نے سفارت کاری کو ترک کرنے کی ایک تباہ کن مثال قرار دیا۔
سونیا گاندھی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران نے تاریخی طور پر ہندوستان کا ساتھ دیا ہے، خاص طور پر 1994 میں جب اقوام متحدہ میں کشمیر پر ہندوستان کے مؤقف کی حمایت کی گئی تھی۔ ان کے مطابق ایران کا موجودہ نظام، سابق شاہی حکومت کے مقابلے میں ہندوستان سے کہیں زیادہ تعاون کرنے والا ثابت ہوا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ دہائیوں میں ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں بھی وسعت آئی ہے لیکن اسی دوطرفہ توازن کے پیش نظر ہندوستان پر ایک اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مغربی ایشیا میں امن کی بحالی کی کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کرے۔
سونیا گاندھی نے کہا کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات کو مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ اور ایران جیسے مقامات پر انسانی حقوق کو روندنے سے باز نہیں آتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کانگریس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کی شدید مذمت کی تھی لیکن اسرائیل کا غیر متناسب، بے رحمانہ ردعمل، جس میں 55 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے، خاندان اور اسپتال تباہ ہوئے اور غزہ قحط کے دہانے پر ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
Published: undefined
انہوں نے حکومتِ ہند، خاص طور پر نئی دہلی کی خاموشی کو اخلاقی پسپائی اور ہندوستانی اصولوں سے انحراف قرار دیا۔ ان کے مطابق، ایسی خاموشی نہ صرف عالمی برادری میں ہندوستان کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی اخلاقی قیادت کے دعوے کو بھی بے معنی بنا دیتی ہے۔
سونیا گاندھی نے آخر میں کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ ہندوستان اپنی خاموشی توڑے، دستیاب سفارتی وسائل کو استعمال کرے اور مغربی ایشیا میں جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined