فکر و خیالات

وزرا کی برطرفی کا بل یا کرپشن کے خاتمے کے نام پر ایک اور دھاندلی!...سہیل انجم

حکومت نے کرپٹ نیتا ریموول بل پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ کیا۔ بل کے تحت 30 دن جیل میں رہنے والا وزیر خودکار طور پر برطرف ہو جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ جمہوری اقدار کے منافی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

 

ایسا لگتا ہے جیسے بی جے پی کسی بھی قیمت پر مرکزی اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ خواہ اس کے لیے آئینی و جمہوری اقدار پر حملہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حکومت نے ابھی حال ہی میں انسداد بدعنوانی کے نام پر جو بل پیش کیا ہے وہ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی و جمہوری اقدار کے منافی ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ اور وزرا کو اقتدار سے باہر کرنا ہے۔ اس بل کا نام ’کرپٹ نیتا ریموول بل‘ ہے اور یہ آئین کی 130 ویں ترمیم ہے۔ اس پر اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ کیا۔ جب وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ بل پیش کیا تو حزب اختلاف کے ارکان نے بل کی کاپی پھاڑ کر ان کے منہ پر پھینک دیا۔ لہٰذا اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

جیسا کہ قارئین واقف ہیں کہ اگر کسی ریاستی حکومت کا کوئی وزیر، مرکزی حکومت کا کوئی وزیر، وزرائے اعلی یا وزیر اعظم بھی بدعنوانی کے ایسے الزام میں پکڑا جاتا ہے جس میں کم از کم پانچ سال کی سزا کا التزام ہو اور وہ تیس روز تک مسلسل حراست میں یا جیل میں رہتا ہے تو وہ آٹومیٹک طریقے سے اقتدار سے برطرف ہو جائے گا۔ یعنی اسے 31 ویں روز اپنی کرسی خالی کرنی پڑے گی۔ وہ چاہے بعد میں بے قصور ہی کیوں نہ ثابت ہو جائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سیاست سے بدعنوانی اور کرپٹ سیاست دانوں کو ہٹانا اور ملکی سیاست کو اس برائی سے پاک کرنا ہے۔ اس سے جواب دہی کا تعین ہوگا اور سیاست میں عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس کے مطابق جن کے اوپر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں ان کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

Published: undefined

جبکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس کا مقصد حزب اختلاف کو بے طاقت بنانا ہے تاکہ وہ حکومت کے خلاف کھڑے نہ ہو سکیں۔ ان کے مطابق حکومت نے 2014 کے بعد سے لے کر اب تک سی بی آئی، ای ڈی اور محکمہ انکم ٹیکس کا استعمال کرکے اپوزیشن کے لاتعداد رہنماوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور کئی کو جیل بھیجا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے اب تک 12 اپوزیشن وزرا کو جیل بھیجا جا چکا ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد ٹی ایم سی کے وزرا کی ہے۔ اس کے پانچ وزرا کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی کے وزرا کا نمبر ہے۔ ان کی تعداد چار ہے۔ اس کے علاوہ ڈی ایم کے اور این سی پی کے ایک ایک وزیر کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال جیل میں رہ کر حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب کوئی بھی ایسا نہیں کر سکے گا بلکہ تیس دن پورے ہوتے ہی اس کے نیچے سے قالین کھینچ لیا جائے گا۔ حزب اختلاف کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا تو حکومت اپوزیشن کے خلاف ایجنسیوں کا مزید بے دریغ استعمال کرے گی۔

اپوزیشن نے مرکزی ایجنسیوں کے استعمال کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت جان بوجھ کر حزب اختلاف کے خلاف ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے تاکہ اپوزیشن کو ختم کیا جا سکے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کی آواز دبائی جا سکے۔ پٹیشن کے مطابق 2014 کے بعد ایجنسیوں نے جتنی گرفتاریاں کی ہیں ان میں سے 95 فیصد اپوزیشن رہنماوں کی ہوئی ہیں۔ اس حکومت میں ایسی کارروائیوں میں 65 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 46 فیصد ارکان پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کے خلاف مجرمانہ الزامات ہیں۔ ان میں سے 31 فیصد کے خلاف قتل، اقدام قتل، اغوا اور خواتین کے خلاف جرائم جیسے سنگین الزامات ہیں۔

Published: undefined

پارلیمنٹ کے 2024 کے انتخابات سے قبل دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، وزیر اعلی اروند کیجری وال اور جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کیجری وال نے جیل سے حکومت چلائی تھی جبکہ سورین نے گرفتاری سے چند گھنٹے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔ گزشتہ بارہ برسوں میں جو بارہ سٹنگ اپوزیشن وزرا گرفتار کیے گئے انھوں نے 30 سے زائد دن جیلوں میں گزارے ہیں۔ ان میں سے 9 ٹی ایم سی اور عام آدمی پارٹی کے وزرا ہیں۔ واضح رہے کہ مرکزی ایجنسیاں بی جے پی وزرا یا سیاست دانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اپوزیشن لیڈر جو کہ بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کر رہا ہے اگر بی جے پی میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی فوری طور پر روک دی جاتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت انتقامی جذبے سے اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بل عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے اس انتظام کے خلاف ہے کہ جب تک عدالت کسی کو مجرم قرار نہ دے دے وہ اپنے عہدے کا نااہل نہیں ہو سکتا۔ محض الزامات عاید کر دینے سے کوئی مجرم نہیں ہو جاتا۔ اس سے اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور جمہوری قدروں کی پامالی ہوگی۔ دستور کی دفعہ 75، 164 اور 239 اے اے کہتی ہیں کہ کسی بھی ریاستی وزیر کو برطرف کرنے میں گورنر کا مشورہ لینا ہوگا۔ آٹومیٹک انداز میں برطرفی دستور کی دفعہ 14، 19 اور 21 سے انحراف ہے جو کہ برابری، اظہار خیال کی آزادی اور قانونی ضابطوں کی پابندی کی گارنٹی دیتی ہیں۔

Published: undefined

خیال رہے کہ ای ڈی نے جتنے اپوزیشن رہنماوں کے خلاف کارروائی کی ہے ان میں سے صرف 38 فیصد کیسوں میں سزا اور پانچ سال کی جیل ہوئی ہے۔ بل کے التزامات اس اصول کے خلاف ہیں کہ جب تک کسی کے خلاف الزامات ثابت نہ ہو جائے اسے بے قصور مانا جائے گا۔ اس بل سے احتساب اور توازن کا اصول درہم برہم ہو جائے گا اور مرکز کے ہاتھوں میں تمام تر طاقت مرتکز ہو جائے گی۔ قانونی کارروائی کے مکمل ہوئے بغیر کسی کو نااہل قرار دے دینا قانونی اور عدالتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو گا جس کی وجہ سے جمہوری اقدار خطرے میں پڑ جائیں گی۔

غرضیکہ یہ بل انتہائی خطرناک ہے۔ بلکہ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آمرانہ ہے اور یہ ا س ملک کے جمہوری نظام اور آئینی انتظامات سے انحراف کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے اس کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے سپرد کر دیا ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا یہ سب کو معلوم ہے۔ حکومت نے وقف بل کو بھی جے پی سی کے حوالے کیا تھا لیکن جے پی سی نے اپوزیشن کے اعتراضات کو اپنی رپورٹ میں شامل ہی نہیں کیا اور حکومت جیسا چاہتی تھی اس نے ویسا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined