تصویر سوشل میڈیا
تصویر: بشکریہ فیس بک (ادھیر رنجن چودھری)
مغربی بنگال میں ذات پر مبنی وفاداریاں عام طور پر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر نہیں ہوتیں اور نہ ہی ذات یہ طے کرتی ہے کہ سیاسی وابستگی کی فیصلہ کن بنیاد کیا ہو! لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ معمول والا وقت نہیں ہے۔ ذات پر مبنی شناخت، دراندازوں اور نام نہاد ’بنگلہ دیشی زبان بولنے والوں‘ کے گرد ایسی تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے کہ سر چکرا جائے۔ اس زمرے (’بنگلہ دیشی زبان‘ آخر ہے کیا؟) کی تشکیل میں پوشیدہ جہالت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، کیونکہ بی جے پی جس طرح ووٹروں کے پولرائزیشن اور ہندو ووٹ کو یکجا کرنے کی کوششوں میں لگی ہے، یہ بے معنی ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
مبینہ دراندازوں کے خلاف شبہات اور نفرت پھیلانے کی کوششوں کے درمیان، اس وقت توجہ مٹوا برادری پر مرکوز ہے، جن کی جڑیں اصل بنگلہ دیش (پہلے مشرقی پاکستان) میں ہیں۔ مٹوا برادری، ایک درج فہرست ذات کی برادری ہے جسے ’نام شودر‘ ذات کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ برادری 1947 کے تقسیم ہند کے دوران مغربی بنگال اور تریپورہ میں آہستہ آہستہ آ بسی، اور جو لوگ اُس وقت وہیں رہ گئے تھے، ان میں سے زیادہ تر 1971 کی جنگ کے دوران ہندوستان آ گئے۔
Published: undefined
مٹوا برادری مغربی بنگال کی درج فہرست ذاتوں کی کل آبادی کا 17 فیصد سے کچھ زیادہ ہے، اور راجبونگشیوں کے بعد ریاست کی دوسری سب سے بڑی درج فہرست ذات ہے۔ مٹوا مہاسنگھ کے عہدیدار تنمے بسواس اور سُکھندو گائین کے مطابق اس برادری کی آبادی 2.5 کروڑ سے 2.75 کروڑ کے درمیان ہے اور ان میں سے 1.7 کروڑ ووٹر ہیں۔ ریاست کی کم از کم 12 (42 میں سے) لوک سبھا نشستوں اور 100 سے زیادہ (294 میں سے) اسمبلی حلقوں میں مٹوا ووٹوں کی خاص اہمیت ہے۔ ان کا پھیلاؤ شمالی اور جنوبی 24 پرگنہ، نادیا، ہوڑہ، شمالی اور جنوبی دیناجپور کے سرحدی اضلاع اور کوچ بہار کے کچھ حصوں تک ہے۔ کم از کم 21 اسمبلی حلقوں میں یہ برادری اکثریت میں ہے، اور اسمبلی کی 68 نشستیں درج فہرست ذاتوں کے لیے مختص ہیں۔
Published: undefined
اگرچہ اُن کی پارٹی سے متعلق وفاداریاں بکھری ہوئی ہیں، لیکن مٹوا جانتے ہیں کہ اُن کی آبادی کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔ سیاست میں بھی اُن کی مداخلت خاصی ہے۔ یہی چیز انہیں ہمیشہ طلب میں رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہیں لے کر سیاسی دعویداری کرنے والے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ اس بار بھی یہی صورت حال ہے، اگرچہ کہانی میں ایک نیا موڑ ہے۔
Published: undefined
30 اگست کو ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے مغربی بنگال مٹوا مہاسنگھ کے 24 رکنی وفد سے ملاقات کی تھی۔ اُن کے ہاتھوں میں جو بینر تھا اُس پر لکھا تھا: ’راہل دادا، بنگال آئیے... ایس آئی آر-اے-بپد (بپد یعنی خطرہ)، کانگریس-اے-نراپد (نراپد یعنی تحفظ)‘۔ یہ ملاقات ترنمول کانگریس کے لیے بے چینی کا باعث بنی، لیکن بی جے پی مزید حیران کرنے والی بات تھی۔ ایسا اس لیے کیونکہ اس کا اہتمام اُنہی کے ایک ناراض مقامی رہنما تپن ہلدر نے کیا تھا۔ اس نے مٹوا برادری کی اُن فکروں کو بھی نمایاں کر دیا جو ہر بار شہریت کے سوال پر اُچھل پڑتی ہیں۔
Published: undefined
بہار میں ایس آئی آر کی مشق، ریاستی مسودہ ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر ناموں کا اخراج اور بنگال میں (جہاں اگلے سال کے شروع میں انتخابات ہیں) اسی شیطانی کھیل کے دوبارہ دہرائے جانے کے اندیشوں نے مٹوا برادری کو پھر سے بے چین کر دیا ہے۔ اُن کی فکر کا اصل سبب ہندوستانی شہری ہونے کے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات کی مانگ ہے۔ 1971 میں ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ہجرت کے بعد کانگریس حکومت نے شمالی 24 پرگنہ اور نادیا جیسے اضلاع میں مٹوا پناہ گزینوں کی بازآبادکاری اور دوبارہ بسانے کا کام کیا، لیکن اُس وقت اُنہیں بڑے پیمانے پر ’پناہ گزین‘ کے طور پر ہی درج کیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کی مدد سے ان پناہ گزینوں کو راشن کارڈ ملے، جو اُس وقت پتہ اور شناخت کا ثبوت بھی تھے اور وسیع معنوں میں شہریت کا بھی۔ مٹوا بنیادی طور پر انہی راشن کارڈوں کی بنیاد پر ووٹر کے طور پر درج ہوئے۔ حالانکہ اب ان کے پاس آدھار کارڈ اور کئی کے پاس پاسپورٹ بھی ہیں، لیکن یہ گھبراہٹ غالباً اس بات سے زیادہ پیدا ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن آخرکار ان اصل راشن کارڈوں کو کس نظر سے دیکھے گا۔
Published: undefined
مرکزی وزیر شانتنو ٹھاکر کے ذریعہ شہریت کے لیے درخواست دینے والے حربے نے ان کی پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔ اگر ایک وزیر کی حیثیت ہی مشکوک ہے، تو عام لوگوں کی حیثیت کتنی ڈانواں ڈول ہوگی؟ وجود سے جڑے ایسے ہی سوالات مٹوا برادری کی کئی جماعتوں کو بی جے پی یا ترنمول کانگریس کے ساتھ اپنی حمایت پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، اور وہ کانگریس کو زیادہ مستحکم اور معتبر ساتھی کے طور پر اپنے قریب پا رہے ہیں۔
Published: undefined
ان سب کے علاوہ ایک الگ مٹوا گروپ بھی ہے جو برادری کی آواز ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ مثلاً مٹوا کی قیادت روایتی طور پر ہری چند ٹھاکر کے وارثین کے ہاتھوں میں رہی ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برہمن ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے انہوں نے ہی تقریباً 1860 میں اس فرقہ کی بنیاد رکھی تھی۔ بااثر ٹھاکر خاندان کی سیاسی وفاداریاں ویسے بھی بٹی ہوئی ہیں۔ شانتنو ٹھاکر بی جے پی کے مرکزی وزیر ہیں، اُن کے بھائی سبرتو بی جے پی رکن اسمبلی ہیں، اور ممتا بالا ٹھاکر ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ شانتنو کا دعویٰ ہے کہ سبرتو ٹی ایم سی میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹھاکر خاندان سے باہر کے رہنما (مثلاً اپنے آپ میں مضبوط اور راناگھاٹ سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ جگن ناتھ سرکار) اس مسئلے کو ہوا دیتے رہے ہیں اور خود کو مٹوا برادری میں ایک متوازی طاقت کے مرکز کے طور پر پیش کر کے ماحول کو مزید گرما دیتے ہیں۔ سب کچھ خاصا دلچسپ ہے۔
Published: undefined
بنگال لامحدود لوک کتھاؤں کا ملک ہے۔ 16 دسمبر 1946 کو ’ڈائریکٹ ایکشن ڈے‘ پر جب کلکتہ میں شدید قتلِ عام شروع ہوا اور ایچ ایس سہروردی کی قیادت والی صوبائی حکومت نے فوج نہیں بلائی، تو اس سے متاثر ہر محلے نے اپنے اپنے ہیرو اور ویلن طے کر لیے۔ ہر محلے کی ایک یادداشت ہوتی ہے جو برادری میں محفوظ رہتی ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھائی جاتی ہے۔
Published: undefined
گوپال پنتھا کے نام سے مشہور رہے گوپال چندر مکھرجی ایسے ہی ایک دبنگ کردار تھے۔ پنتھا کا لفظی مطلب ’بکرا‘ ہوتا ہے، لیکن اس علاقے کی بول چال میں پنتھا تحقیر آمیز سے زیادہ محبت بھرا استعارہ ہے۔ وویک اگنی ہوتری کی فلم ’دی بنگال فائلز‘ میں ان کا تعارف اس جملے سے ہوتا ہے: ’ایک تھا قصائی گوپال پنتھا‘۔ انہیں ’خوفناک اور توہین آمیز‘ کردار کے طور پر دکھائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے مکھرجی کے پوتے شانتنو نے عدالت میں 2 عرضیاں داخل کی ہیں، جن میں سے دوسری عرضی میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ فلم کی سنیما گھروں میں ریلیز پر پابندی عائد کی جائے۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے عرضی خارج کر دی اور فلم 5 ستمبر کو کولکاتا میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ 8 ستمبر کو باکس آفس رپورٹ کے مطابق تقریباً 18 فیصد سے بھی کم ناظرین نے اس کی طرف رُخ کیا۔
Published: undefined
دلچسپ یہ ہے کہ 16 اگست کو جب ٹریلر کی اسکریننگ ہوئی، تو اس کو لے کر ہوئے تنازعہ نے فلم سے کہیں زیادہ توجہ کھینچ لی۔ ’پری ویو‘ روکے جانے سے لوگوں کی جستجو اور بڑھ گئی۔ جو خبر تیزی سے وائرل ہوئی، وہ یہ تھی کہ ممتا بنرجی کی حکومت اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگا رہی ہے اور کلکتہ قتلِ عام کے ’چھپے سچ‘ پر پردہ ڈالنا چاہ رہی ہے۔
Published: undefined
المیہ یہ ہے کہ گوپال چندر مکھرجی کانگریسی تھے، جنہیں ہندوستانی سیاست کی ’باہوبَلی‘ روایت کا ’بیٹا ورژن‘ کہا جاتا ہے۔ وہ مغربی بنگال کے پہلے وزیر اعلیٰ ودھان چندر رائے کے آگے چلنے والی مشعل مانے جاتے ہیں۔ لوک کتھاؤں کے مطابق 1957 کی ریاستی اسمبلی میں اپنے اس ’سرپرست‘ کو ہار کے منھ سے نکال کر جیت دلانے میں ان کا بڑا کردار رہا۔ گوپال پنتھا کا ہندوتوا کے استعارے کے طور پر ’رُوپانترن‘ (تبدیلی) اُن کے خاندان کو تو پسند نہیں ہی آیا، لگتا ہے عوام کو بھی بالکل پسند نہیں آیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined