فکر و خیالات

نئی ووٹر لسٹ کی تیاری یا جمہوریت کے پیڑ پر چلائی جا رہی ہے کلہاڑی

بہار میں ووٹر لسٹ کی نئی تیاری پر تنازعہ، شہری دستاویزات کی عدم قبولیت اور شہریت ثابت کرنے کی شرط پر مسلمانوں، دلتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کا خدشہ بڑھا

<div class="paragraphs"><p>ووٹر لسٹ / علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

ووٹر لسٹ / علامتی تصویر / آئی اے این ایس

 

ہریانہ کے بعد مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں ووٹر لسٹ میں کی گئی مبینہ ہیر پھیر اور اس کے بعد ووٹوں کی تعداد میں 12 تا 15 فیصد اضافہ اور پھر بی جے پی کی ہاری ہوئی بازی کو جیت میں بدل دینے کے الزام اور راہل گاندھی کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کی گئی عرضی کا ہوا ہوائی جواب دے کر الیکشن کمیشن نے اپنی پہلے سے ہی برباد ہو چکی ساکھ کو اور مٹی میں ملا دیا تھا۔ اس بدنامی اور بداعتمادی پر شاید اب بھی اس کا دل نہیں بھرا تھا اس لیے بہار اسمبلی الیکشن کے لیے نئی ووٹر لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کر دیا، جسے خصوصی گہری نظرثانی (اسپیشل انٹینسیو ریویژن) نام دیا گیا ہے۔

یہ دراصل مودی حکومت کی پرانی اسکیم شہریت کا قومی رجسٹر تیار کرنے کی سازش کی جانب ایک قدم ہے کیونکہ جب اس اسکیم کا اعلان ہوا تھا تب اس کی زبردست مخالفت ہوئی تھی۔ دہلی کے شاہین باغ اور لکھنؤ میں گھنٹہ گھر جیسا تاریخی احتجاج ہوا تھا اور حکومت کو اپنا قدم پیچھے ہٹانا پڑا تھا، مگر وہ اسکیم ختم نہیں ہوئی تھی۔ اب الیکشن کمیشن کے ذریعہ اسے بہار میں نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے بعد پورے ملک میں یہ نافذ ہوگی۔ اس پورے عمل کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے تاکہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا جو سنہری موقع اس وقت آر ایس ایس کے ہاتھ میں آیا ہے وہ رائگاں نہ جائے۔

Published: undefined

ہندوستان کا الیکشن کمیشن دنیا کے بہترین الیکشن کمیشنوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے صرف ہندوستان ہی نہیں اور بھی کئی نو آزاد ملکوں میں چناؤ کرائے ہیں۔ تھوڑی بہت الزام تراشیاں ضرور ہوتی رہیں لیکن عمومی طور پر کمیشن کی ساکھ برقرار رہی تھی لیکن مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح تمام آئینی اداروں میں سنگھ کی شاخوں سے نکلے یا اس کے نظریہ کے حامی لوگوں کو بٹھا کر ان کی خود مختاری، ایمانداری، غیر جانبداری اور آئینی تقاضوں سے وابستگی ختم کی گئی، الیکشن کمیشن اس کا سب سے بڑا شکار اور جیتی جاگتی مثال بن گیا ہے۔

اگر الیکشن کمیشن کو اپنے قابو میں رکھنے لہ منشا نہ ہوتی تو سپریم کورٹ کی ہدایت کو قانون بنا کر رد کرنے اور کمیشن کی تشکیل کے لیے بنائی گئی تین رکنی کمیٹی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹا کر اس میں مرکزی وزیر داخلہ کو شامل نہ کیا جاتا۔ اس طرح حکومت نے اس تین رکنی کمیٹی میں اپنے دو رکن شامل کر کے اپوزیشن کے لیڈر کی موجودگی کو محض شو پیس بنا دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ہی فیصلہ کو اس طرح دھتا بتانے والے فیصلہ کے خلاف بنے قانون کی آئینی جانچ کے لیے دائر اپیل کو سپریم کورٹ آج تک معرض التوا میں ڈالے ہوئے ہے اور مودی جی ڈنکے کی چوٹ پر من مانی کر رہے ہیں۔

Published: undefined

الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد ہی سبھی سیاسی پارٹیاں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ ان کا یہ سوال بالکل حق بجانب ہے کہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن کی ووٹر لسٹ پر اتنی جلد نظرثانی کی ضرورت کیوں پیش آ گئی اور اگر وہ ووٹر لسٹ مشکوک تھی تو پارلیمانی چناؤ بھی غلط ہوا، اسے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ مگر اقتدار کا نشہ کوئی دلیل کب سنتا ہے!

اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں شمولیت کی اہلیت کے لیے حکومت کے جاری کردہ آدھار کارڈ سمیت تمام دستاویزوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آدھار کارڈ تو پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کے ذریعہ جاری کیے گئے تھے، الیکشن کمیشن کیا پارلیمنٹ سے بھی اوپر ہو گیا جو وہ اس کارڈ کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے؟

Published: undefined

اس کے علاوہ پہلے سے جاری ہوا ووٹر کارڈ، راشن کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، منریگا کارڈ وغیرہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ہاں، پاسپورٹ قبول کیا جائے گا لیکن کیا پاسپورٹ بغیر آدھار کارڈ کے بن جاتا ہے؟ اتنا معمولی سا سوال بھی کمیشن کے ارباب حل و عقد کی سمجھ میں نہیں آتا۔

ان ووٹروں کو جن کی ووٹ 2023 کے بعد بنی ہے، اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنی تاریخ اور پیدائش کے مقام کا سرٹیفکیٹ دینا ہوگا بلکہ اپنے والدین کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی دینا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے نئے فرمان میں اپنی شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری ووٹروں پر ڈالی ہے، جو مسلمہ قانونی اصولوں کے خلاف ہے۔ متعدد عدالتیں بارہا یہ کہہ چکی ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کی شہریت پر سوال اٹھاتا ہے تو اسے ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہوگی، نہ کہ مذکورہ شخص کی لیکن کمیشن اس عدالتی قانونی اصول کو بھی نظرانداز کر رہا ہے۔

Published: undefined

جن تعلیمی دستاویزوں کو تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے، وہ ایک مذاق سے کم نہیں۔ کمیشن کو یہ فرمان جاری کرنے سے پہلے سرکاری ریکارڈوں سے تعلیم کے میدان کی حقیقت جان لینی چاہیے تھی، تب انہیں پتہ چل جاتا کہ بہار تعلیم کے معاملے میں کتنا پچھڑا ہوا ہے اور مذکورہ دستاویز دینا ممکن ہی نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فرمان کے ذریعہ بہار کے قریب آٹھ کروڑ ووٹروں میں سے نصف سے زائد کو صرف ایک مہینہ میں اپنی شہریت ثابت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس مدت میں سے قریب ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور بہار کے لوگوں کے بموجب ابھی تک ان کے پاس بوتھ لیول افسران (بی ایل او) مذکورہ فارم لے کر نہیں پہنچے ہیں۔ جولائی کا مہینہ نئے تدریسی سال کے آغاز کا ہوتا ہے، اسکولوں میں بچوں کے داخلے وغیرہ کا عمل ہوتا ہے۔ اس مہینے اساتذہ کو مذکورہ ڈیوٹی پر لگانا بچوں کی تعلیم کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنا ہے، مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش؟

Published: undefined

ویسے اطلاعات تو یہ بھی آ رہی ہیں کہ اس کام میں آر ایس ایس کے کارکنوں کو بھی لگایا گیا ہے یا رضاکارانہ طور پر وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا سب سے بڑا مقصد مخالف ووٹروں، خاص کر مسلمانوں اور دلتوں کے ناموں کو کاٹنا اور حامی ووٹروں کے نام بڑھانا ہے۔ آر ایس ایس والے یہ کام ہمیشہ کرتے ہیں، چاہے رضاکار کے طور پر ہو یا سرکاری عملہ جو اس کے نظریات کا پیروکار ہے، وہ سب یہ کام ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ دراصل انتخابی بدعنوانی کا سلسلہ ہی ووٹر لسٹ کی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر بی جے پی ہی نہیں، نتیش کمار کی جنتا دل (یو) اور این ڈی اے میں شامل کوئی پارٹی اس خطرناک فرمان کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہی ہے۔ صاف ہے کہ انہیں اس میں سیاسی فائدہ دکھائی دے رہا ہے، جبکہ اپوزیشن نے اس کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے مگر مودی حکومت کی منشا کو دیکھتے ہوئے کمیشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا، اس کا امکان کم ہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined