نسل کشی، جنگی جرائم اور خاموش دنیا؛ کیا سزا صرف کمزوروں کے لیے ہے؟
ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے عالمی رہنما جنگی جرائم اور نسل کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ کبھی اس کی قیمت چکائیں گے؟ غالباً نہیں اور یہی آج کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے

علامتی تصویر / اے آئی
یہ دور اب شک و شبہ میں مبتلا ’ہیملیٹ‘ کا نہیں رہا بلکہ سودے بازی پر یقین رکھنے والے طاقتور فیصلوں کا ہے۔ 22 جون کی رات، جب ٹرمپ نے ایران کے مبینہ جوہری ٹھکانوں پر بمباری کا حکم دیا، تب سے مغربی ایشیا کے دوبارہ نوآبادیاتی تسلط کی مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ٹرمپ نے لمحوں میں فیصلہ کیا کہ بی-2 بمبار طیارے 15 ٹن وزنی ’مدر آف آل بامز‘ لے کر جائیں گے اور حسبِ معمول، اس حملے کو جواز دینے کے لیے انہوں نے ’مدر آف آل لائیز‘ یعنی جھوٹ کا سہارا لیا۔
اس حملے سے ایک دن قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگلے دو ہفتے وہ سفارت کاری آزمائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے 13 تاریخ کو اسرائیل نے اچانک حملہ کر کے سفارت کاری کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا۔
آج کے عہد میں ٹرمپ اور نیتن یاہو مایوسی اور تباہی کے چنگیز خان بن چکے ہیں، جو لگاتار جنگی جرائم اور نسل کشی کر رہے ہیں۔ مگر غالباً ان سے کبھی کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ یہ اس عہد کا عکس ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ ان کا منصوبہ اب واضح ہے، ایران میں حکومت کی تبدیلی اور پورے مغربی ایشیا، خصوصاً تیل کے ذخائر پر قبضہ۔
افسوس کہ نریندر مودی، جے شنکر اور ڈووال جیسے رہنما اور عہدیدار اپنی لین دین والی اور اسلاموفوبی نگاہ سے یہ سب نہیں دیکھ سکتے۔ ایران کا جوہری ہتھیار پروگرام کبھی بھی اصل مسئلہ نہیں رہا۔ درحقیقت، ایران کا ایسا کوئی پروگرام موجود ہی نہیں (جیسا کہ کئی ثبوتوں سے واضح ہو چکا ہے)۔
لیکن یہ پہلی بار نہیں۔ صدام حسین کے پاس بھی کوئی ’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار‘ نہیں تھا لیکن اس جھوٹ کو بی-2 یعنی بلیر اور بش نے اپنے مفادات کے لیے گڑھا تھا۔ اب یہی جھوٹ موجودہ دور کے دو بڑے فریب کاروں نے ایران پر حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے تراشا ہے۔
اس پورے واقعے سے کچھ ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جنہیں نہ تو دوسرے ممالک کی حکومتیں پوچھ رہی ہیں اور نہ ہی وہاں کا میڈیا۔ایران کو جوہری پروگرام، حتیٰ کہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام اپنانے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ جب دیگر جوہری طاقتیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنے کے لیے تیار نہیں، تو ایران پر ہی اس حوالے سے دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ جب ایران روس، پاکستان، ہندوستان اور یقینی طور پر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد خطرے یعنی اسرائیل جیسے جوہری طاقت کے حامل ممالک سے گھرا ہوا ہے، تو ایران کو اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے اور جوہری ہتھیار بنانے کا حق کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
اسرائیل نے آج تک باضابطہ طور پر تسلیم ہی نہیں کیا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ اس نے نہ تو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این ٹی پی) پر دستخط کیے ہیں، اور نہ ہی آئی اے ای اےکے معائنے یا پروٹوکول کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے باوجود، پابندیاں ایران کے خلاف عائد کی جاتی ہیں، اسرائیل کے خلاف نہیں!
مغربی طاقتوں نے ایک اور جھوٹا بیانیہ گڑھا ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق پروگرام پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ایک بے لگام حکومت ہے اور یہ ملک دہشت گردی برآمد کرتا ہے۔ یہ الزام ایک ایسی تہذیب پر لگایا جا رہا ہے جو اس وقت سے قائم ہے جب آج کے امریکیوں کے آباؤ اجداد شمالی سمندر کے جزیروں میں غاروں میں رہا کرتے تھے۔ اور یہ الزام وہ دو ممالک لگا رہے ہیں جنہیں اخلاقی طور پر ایسی باتیں کہنے کا کوئی حق ہی نہیں۔ پہلا ہے امریکہ، جو تاریخ کا واحد ملک ہے جس نے کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم کا استعمال کیا، جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے زیادہ جنگیں شروع کیں (اور زیادہ تر میں شکست کھائی)، اور جس نے اب تک دنیا کے 30 سے زائد ممالک پر بمباری کر کے انہیں غیر مستحکم کیا۔
دوسرا ہے زمین کا بھوکا اسرائیل، جو مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی دہشت گرد قوت بن چکا ہے، ایک ایسا ظالم ملک جس نے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے سیکڑوں اہلکاروں، طبی عملے، صحافیوں، امدادی کارکنوں سمیت ایک لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا اور باقی ماندہ کو بھوکا مارنے پر آمادہ ہے۔
ان دونوں (امریکہ اور اسرائیل) نے بارہا بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں پر مبنی نظام کو ٹھکرا دیا ہے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور عالمی فوجداری عدالت جیسے اداروں کی بے حرمتی کی ہے، ان کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، انہیں دھمکایا ہے اور متعدد عالمی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو قتل بھی کیا ہے۔ اگر ٹرمپ کو نوبل امن انعام نہ دیا جائے، تو بعید نہیں کہ وہ نوبل انعام کے ہیڈکوارٹر پر بمباری کر دیں! اور اگر نیتن یاہو کو مجرمانہ مقدمات سے بری نہ کیا جائے، تو وہ اسرائیلی سپریم کورٹ پر ہی پابندی نہ لگا دیں! اور پھر ہمیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ دنیا کے لیے اصل خطرہ ایران ہے؟
یہ تمام تضادات روز بروز گہرے ہو رہے ہیں۔ اگر ان کے نتائج اتنے خطرناک نہ ہوتے تو یہ سب مزاحیہ لگتا۔ پاکستان نے جس دن ٹرمپ کے نوبل انعام کی وکالت کی، اسی دن ٹرمپ نے دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم پھینک کر تیسری عالمی جنگ کے دہانے تک ہمیں پہنچا دیا اور پھر ٹوئٹ کیا، ’اب امن کا وقت ہے!‘
ہمارے وزیراعظم، امریکہ کی ایران پر بمباری کے بعد، ایران کے صدر کو فون کر کے ’تناؤ کم کرنے‘ کا مشورہ دیتے ہیں! کیا یہ کہنا ان سے نہیں بنتا جو تنازعہ کو ہوا دے رہے ہیں؟ یورپی یونین نے اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر ’غور‘ کرنے کے لیے اجلاس بلایا ہے، جبکہ اسی دوران اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ میں مزید 1500 فلسطینیوں کو قتل کر دے گا۔
ہم ایک ایسے کھیل کے تماشائی بن چکے ہیں جس میں انسانی ہمدردی، قانون اور سچائی سب مصلحت کے نیچے دب چکے ہیں۔ شاید میں سادہ لوح ہوں، یا احمق لیکن میری سمجھ بوجھ جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، دنیا کی منافقتیں اب اور واضح ہو گئی ہیں۔ اداکارہ میریل اسٹریپ کہتی ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ نظروں کی کمزوری تو بڑھتی ہے مگر بکواس کو پہچاننے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔ شاید میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ یہ بصیرت ہے یا عذاب؟ اس کا فیصلہ ’ہیملیٹ‘ کو کرنا ہے۔
(مضمون نگار ابھے شکلا ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں۔ یہ مضمون ان کے بلاگ https://avayshukla.blogspot.com سے ماخوذ ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔