ہندوستان کا سفارتی تنہائی کی طرف بڑھنا تشویشناک
اقوام متحدہ میں پاکستان کو مسلسل حمایت، کلیدی عہدے اور پہلگام حملے پر عالمی خاموشی ہندوستان کے سفارتی تنہائی کی جانب بڑھنے کا اشارہ ہے، جبکہ مودی حکومت کی حکمت عملی سوالوں کی زد میں ہے

وزیر اعظم نریندر مودی / Getty Images
پاکستان نے یکم جولائی کو اقوام متحدہ کی سب سے طاقتور باڈی، سلامتی کونسل کی صدارت ایک ماہ کے لیے سنبھال لی۔ بظاہر یہ معمول کی بات ہے کیونکہ 15 رکنی کونسل میں انگریزی حروفِ تہجی کے مطابق باری باری ماہانہ صدارت ملتی ہے۔
تاہم جب پچھلی بار ہندوستان کو بطور غیر مستقل رکن اس کونسل کی صدارت ملی تھی تو مودی حکومت کے حامیوں نے اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا، حالانکہ یہ کوئی غیر معمولی اعزاز نہیں۔ ہندوستان اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اور 1945 میں منظور شدہ چارٹر کے 50 اصل دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی ہندوستان کم از کم 7 بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن رہ چکا ہے۔
پاکستان کی حالیہ سفارتی پوزیشن کا اصل اشارہ 2024 کے جون میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نظر آیا، جب 2025-26 کے سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کے انتخاب میں پاکستان کو 193 میں سے 182 ووٹ ملے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ مودی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسی عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سلامتی کونسل کی صدارت کے علاوہ، پاکستان اقوام متحدہ کی طالبان پابندی کمیٹی کا سربراہ بھی ہے اور انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب سربراہ بھی۔ یہ صورتحال مودی حکومت کے ان دعووں کی تردید کرتی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہو چکا ہے۔ اگرچہ ہندوستان مستقل کہتا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا پشت پناہ ہے مگر دنیا نے یہ بات قبول نہیں کی۔ اگر پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے بیانات کو دیکھا جائے تو یہ امکان ہے کہ پاکستان کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبر کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
ہندوستان خاصی نازک پوزیشن میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد مودی حکومت نے پاکستان کے مبینہ دہشت گرد کیمپوں پر میزائل حملہ کیا مگر وہ اس کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی۔ راء کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے لندن میں بیان دیا کہ ممکن ہے حملے میں آئی ایس آئی ملوث ہو مگر مقامی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان بھی یہی کہے گا کہ حملہ اندرونی نوعیت کا تھا۔ یہ ممکن نہیں لگتا کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی مستقل رکن ہندوستان کے خلاف کسی قرارداد کی حمایت کرے گا، شاید چین بھی نہیں۔
ممکنہ طور پر ہندوستانی وزارتِ خارجہ کی ہدایت پر ہندوستانی میڈیا نے واشنگٹن میں حالیہ کواڈ وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم پہلگام حملے کے مجرموں، منصوبہ سازوں اور مالی مددگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپیل کرتے ہیں اور تمام رکن ممالک سے اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت تعاون کی درخواست کرتے ہیں۔‘ تاہم اس بیان میں کہیں بھی پاکستان کا ذکر نہیں اور حقیقت میں یہ بیان کسی طاقتور اقدام سے زیادہ، ہندوستان کی طرف سے عالمی برادری سے مدد کی درخواست محسوس ہوتا ہے۔
تجارتی معاہدہ؟
یہ امکان ہے کہ اس مضمون کی اشاعت تک یا سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دی گئی ڈیڈ لائن (9 جولائی) سے پہلے، ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے پر کوئی ابتدائی سمجھوتہ ہو جائے۔ ٹرمپ نے رائٹرز سے کہا، ’’ابھی ہندوستان کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا لیکن مجھے لگتا ہے وہ ایسا کرنے جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم کم ٹیرف والا معاہدہ کریں گے۔‘‘ اس بیان کو عمومی طور پر ایسے دیکھا جا رہا ہے کہ ہندوستان امریکی برآمدات پر محصولات کم کرے گا تاکہ ٹرمپ کی دھمکی (ہندوستانی برآمدات پر 26 فیصد ٹیرف) سے بچا جا سکے۔
ہندوستانی وفد نے، جو اس مقصد کے لیے واشنگٹن گیا ہے، اپنا قیام بڑھا دیا ہے تاکہ ایک جزوی اور ابتدائی معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ یہ واضح نہیں کہ اگر ہندوستان امریکی زرعی مصنوعات پر محصولات کم کرتا ہے تو اس کے بدلے میں کیا حاصل کرے گا؟ تاہم میڈیا میں خاصی ہلچل ہے کہ ہندوستان کی ’سرخ لکیر‘ کہاں ہے، کیونکہ ہندوستان مکئی، سویابین، ڈیری اور ایتھنول کی درآمد پر سخت پابندیاں لگاتا ہے، جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ ہٹائی جائیں۔
برطانیہ واحد بڑی معیشت ہے جس نے ٹرمپ کے ساتھ ایک مفاہمتی معاہدہ کیا ہے جس سے کاروں، اسٹیل اور ایلومینیم کی برآمد کو فائدہ پہنچے گا اور اس کا اثر ٹاٹا کی ملکیت جگوار اور لینڈ روور پر بھی پڑے گا۔ کینیڈا، میکسیکو، جاپان اور یورپی یونین اب تک ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔
نیویارک کا مسلمان میئر؟
امریکی سیاست میں تیزی سے ابھرنے والے ایک نام ظہران ممدانی کا نیویارک شہر کے میئر بننے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 33 سالہ ظہران نے ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری میں نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کیومو کو ہرا دیا اور پارٹی کے امیدوار بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کوینز حلقے سے نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے رکن ظہران کو 56 فیصد ووٹ ملے۔
ان کی کامیابی کی بنیاد ان کا تبدیلی کا وژن، پہلی بار ووٹ دینے والے نوجوانوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت اور مختلف نسلی برادریوں کو یکجا کرنے کا ہنر ہے لیکن جتنی تیزی سے وہ مقبول ہوئے ہیں، اتنی ہی تیزی سے انہوں نے طاقتور مخالفین بھی پیدا کر لیے ہیں۔ ٹرمپ نے ان پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ’خالص کمیونسٹ‘ کہا اور دھمکی دی کہ اگر نومبر میں وہ منتخب ہوئے اور اپنی ’ذمہ داری‘ نہ نبھائی تو نیویارک کی فنڈنگ روک دی جائے گی۔
ظہران معروف فلم ساز میرا نائر اور ہند نژاد افریقیات کے ماہر محمود ممدانی کے بیٹے ہیں۔ وہ عوامی سہولیات میں بہتری، مفت بس سروس، بچوں کی دیکھ بھال، سرکاری کرانہ اسٹور اور ٹیکس اصلاحات کا وعدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نیویارک آئے تو انہیں بین الاقوامی عدالت کے وارنٹ کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔
ممدانی کا سیاسی نظریہ وزیر اعظم مودی کے عالمی وژن سے متضاد ہے اور بطور میئر ان کے پاس عدالتی معاملات میں براہِ راست اختیار نہیں ہوگا لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خالصتان نواز سکھ کی ہلاکت اور اڈانی گروپ سے متعلق مقدمات کی سماعت نیویارک کی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔