Getty Images
وطن عزیز ہندوستان میں بالخصوص ملک میں سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ اترپردیش میں فرقہ پرستی جس انتہا کو پہنچ چکی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کا ہندوستان کیسا ہوگا۔ جس ملک میں تعلیم اور صحت کی بگڑتی صورت حال، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ، انسانی خون کی ارزانی کے بجائے مویشیوں اور مذہبی مقامات کی بات ہو، اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایسی صورت میں محبان وطن کو اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہوگا کیونکہ انتشار مخالفین کے حوصلوں کو طاقت دیتا ہے اور عام مسلمانوں کو بدگمان کر دیتا ہے۔ لہٰذا تیوہاروں کے اس موسم میں مفسدین اور منافقین سے ہوشیار کر دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اسی میں ملک و ملت کی عافیت ہے۔
Published: undefined
رواں محرم الحرام کے سلسلے میں اترپردیش انتظامیہ کے فرمان پر محبان وطن نے جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی چہار سو ستائش کی جا رہی ہے کیونکہ حال ہی میں جاری یوگی انتظامیہ کی ’ ایڈوائزری‘ کی آڑ میں سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ شرپسندوں نے بھی ریاست میں مجالس کے مقامات پر چسپاں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور آیت اللہ سیستانی کے پوسٹر پھاڑنے اور ہٹانے کی کوشش کر کے فساد کو دعوت دی مگر مسلمانوں کے دانشمندانہ اقدامات نے تمام سازشی چالوں کو ناکام بنا کر ریاست کا امن و امان بچائے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ شہید اعظم حضرت امام حسین اور آپ کے جانثاروں کی یاد میں منائے جانے والے محرم میں کچھ مقامات کے علاوہ کہیں سے ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ہے۔
محرم کے دوران اترپردیش میں جہاں کہیں بھی کچھ تنازع ہوا ہے اس میں پولیس کا متعصبانہ چہرہ سامنے آیا ہے جس میں محافظ کا کردار ادا کرنے والی پولیس کے اہلکار اپنے اعلیٰ افسران کی خوشنودی حاصل کرنے اور فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کرتے نظر آئے اور وہ عمل انجام دیا جس سے عقیدتمندوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔ اس سلسلے میں اترپردیش کے حساس شہر بہرائچ کے نانپارا کا واقعہ سرخیوں میں رہا جہاں روز عاشورہ (10محرم) کے جلوس کے دوران اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب ایک پولیس اہلکار نے مبینہ طور پر ڈنڈا مارکر دنیا بھرکے شیعوں کے مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا پوسٹر پھاڑ دیا۔ اس سے جلوس میں شامل نوجوانوں میں غصہ بھڑک گیا۔
Published: undefined
جلوس میں شامل عقیدتمندوں کا کہنا ہے کہ راجہ بازار چوکی انچارج رام گووند نے مذہبی رہنما کے پوسٹر کو ڈنڈا مارا، انہیں دہشت گرد کہا۔ اس کے خلاف عقیدتمندوں نے جلوس کو روک کر ملزم انسپکٹر کے خلاف کارروائی کی مانگ کرتے ہوئے موقع پر ہی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ جلوس میں شامل ایک مقامی نوجوان نے کہا کہ پولیس افسر آیا اور آیت اللہ خامنہ ای کا پوسٹر پھاڑ دیا، اس نے ہم سے عزت سے بات تک نہیں کی۔ اس کے بجائے ہمیں دہشت گرد کہا گیا۔ کیا آپ پرامن سوگواروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟ جلوس میں شامل ایک اور نوجوان نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای اور آیت اللہ سیستانی ہمارے مذہبی رہنما ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں دہشت گرد کہنا بہت تکلیف دہ ہے۔
شہید کربلا امام حسین علیہ السلام کے ماننے والوں کا کردار امام کی شہادت کے بعد سے ہی بہت اہم رہا ہے۔ انہوں نے امام حسین کے پیغام کو زندہ رکھا اور ان کی قربانی کو یادگار بنایا۔ ان کے ماننے والوں نے ظلم کے خلاف جدوجہد کی اور آج تک حق و انصاف کے لئے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ محرم بھی اسی تحریک کی ایک کڑی ہے جس کے تحت امام حسین کے ماننے والے ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں، ہمیشہ حق اور انصاف کی حمایت کرتے ہیں اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کو قبول نہیں کرتے۔ امام حسین کے ماننے والے ان کی شہادت پر عزاداری کرتے ہیں اور ان کے غم میں شریک ہوتے ہیں۔
Published: undefined
دنیا جانتی ہے کہ محرم ان شہیدان کربلا کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے انسانوں کے درمیان اتحاد واخوت، سچائی، انسانی حقوق، ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ان شہداء کی یاد منانے کے لیے دنیا کے ہر کونے میں مجالس، ماتم اور جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں سوگوار عقیدتمند پرامن انداز میں پیغام کربلا کو عام کرتے ہیں۔ ایسے غمگین ماحول میں طبقہ خاص کی جانب سے کسی طرح کی اشتعال انگیزی یا تشدد کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ بہرائچ اس کی تازہ مثال ہے جہاں پولیس افسر کے عمل سے عقیدتمندوں کے جذبات کو شدید چوٹ پہنچی مگر انہوں نے کسی طرح کے تشدد کے بجائے پر امن طریقے سے انتظامیہ کے سامنے اپنا احتجاج درج کرایا۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے جب اتر پردیش انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئی ’ایڈوائزری‘ پر تنازع پیدا ہوا ہے اس سے قبل محرم میں بھی ایڈوائزری کے نام پرایسا فرمان جاری کیا گیا تھا جس میں قابل اعتراض باتیں کہی گئی تھیں جس کے خلاف سخت ناراضگی ظاہر کئے جانے کے بعد انتظامیہ کو اپنے فرمان میں اصلاح کرنا پڑی تھی۔ اسی طرح اس بار پھر یوپی انتظامیہ کی ’محرم ایڈوائزری‘ پر تنازع ہوا جس میں کسی باہری لیڈر کے پوسٹر چسپاں کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد شرپسندوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے کہ خود کو انتظامی اہلکار بتا کر لکھنو کے مشہور ’رومی گیٹ‘ پر لگے آیت اللہ خامنہ ای کا پوسٹر اتروانے پہنچ گئے۔ جب مقامی لوگوں نے ان کی ویڈیو بنانی شروع کی تو وہ منہ چھپا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
Published: undefined
کچھ اسی طرح ریاست کی پولیس نے بھی اپنا کردار پیش کیا۔ خبروں کے مطابق کئی علاقوں میں مذہبی مقامات کے اطراف لگے آیت اللہ خامنہ ای کے پوسٹر کو پولیس نے یہ کہتے ہوئے اتروا دیا کہ ’کسی باہری لیڈر‘ کا پوسٹرلگانا ممنوع ہے۔ جب یہ اطلاع ذمہ داران قوم کے علم میں آئی تو وہ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو قائل کرنے میں کا میاب ہوئے کہ آیت اللہ خامنہ ای مذہبی رہنما ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے بعد کہیں سے بھی پوسٹر اتروانے کی خبرنہیں آئی۔ یوپی انتظامیہ کے اس قابل اعتراض فرمان کا فائدہ اٹھا کر کچھ شرپسندوں نے بھی ریاست کے فرقہ وارانہ ماحول کو ناپید کرنے کی کوشش کی حالانکہ عوام نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن مخالف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
یوگی حکومت کے اہلکاروں کو چاہئے کہ وہ محرم اور نواسہ رسول کی قربانی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ محرم منانے والے انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ امام حسین نے کربلا کے میدان میں جو صبر اور استقامت دکھائی اس کی مثال نہیں ملتی اور ان کے ماننے والے بھی مصیبتوں میں صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امام حسین نے اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ان کے ماننے والے بھی ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ امام حسین کے ماننے والوں کا کردار ایک مثالی کردار ہے جو حق و انصاف، صبر و استقامت، قربانی اور انسانیت کی خدمت پر مبنی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined