ریڈیو لہروں کی دریافت: ہرٹز کا غیرمعمولی تجربہ، جس نے سائنس کی دنیا ہلا دی

ہنرخ ہرٹز نے میکسویل کی تھیوری کو تجرباتی طور پر درست ثابت کیا اور ریڈیو ویوز دریافت کیں، جس سے جدید مواصلاتی دور کی بنیاد پڑی۔ ان کا کارنامہ سائنس کی دنیا میں انمٹ ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

user

وصی حیدر

ریڈیو لہریں کس طرح دریافت ہوئیں اور ان کا میکسویل کی مساوات سے کیا تعلق ہے؟ اس کہانی کا آغاز ایک خاموش طبیعت کے نوجوان جرمن سائنسدان ہنرخ ہرٹز سے ہوتا ہے، جنہوں نے ہچکچاتے ہوئے ایک سائنسی مقابلے میں حصہ لیا اور دنیا کو ایک بڑی دریافت سے روشناس کرایا۔

یہ بات ہے سن 1879 کی، جب جرمنی کے ممتاز سائنسدان حرمین وان ہیلمہولٹز نے اعلان کیا کہ پروشین سائنس اکیڈمی کا سالانہ انعام اس شخص کو دیا جائے گا جو میکسویل کی الیکٹرو میگنیٹک تھیوری یا فیراڈے کے اصولوں کو تجرباتی طور پر ثابت کرے گا۔ ہیلمہولٹز کو یقین تھا کہ ان کے 22 سالہ شاگرد ہرٹز یہ چیلنج مکمل کر سکتے ہیں۔

شروع میں ہرٹز کو لگا کہ یہ کام مشکل ہے، مگر انہوں نے کئی سال اس موضوع پر گہری تحقیق کی۔ ان کی ڈائری میں کئی دن صرف یہی لکھا تھا کہ ’’میں جو کچھ سوچتا ہوں، وہ سب پہلے سے ہی معلوم ہے۔‘‘ 1885 کے اختتام پر انہوں نے لکھا، ’’اچھا ہوا کہ یہ سال ختم ہوا، امید ہے اگلا سال بہتر ہوگا۔‘‘

واقعی 1886 کا سال ان کے لیے خوش قسمت ثابت ہوا۔ انہوں نے ایک ایسا سرکٹ بنایا جس میں ہائی وولٹیج کی مدد سے بار بار اسپارک پیدا ہوتا تھا، تاکہ مسلسل ریڈیو ویوز بن سکیں۔ ویوز کی موجودگی جانچنے کے لیے انہوں نے ایک دھات یکا بڑا چھلّا بنایا، جس میں ایک چھوٹا سا گیپ رکھا گیا تاکہ ویوز کی موجودگی پر اسپارک نظر آئے۔ ہرٹز نے ثابت کیا کہ یہ لہریں آئینے سے روشنی کی طرح منعکس ہوتی ہیں اور پرزم سے گزر کر مڑتی ہیں اور ان کی تمام خصوصیات تقریباً روشنی جیسی ہیں۔


انہوں نے تجرباتی طور پر یہ بھی دکھایا کہ ان ویوز کی رفتار بھی روشنی جتنی ہے اور اس بنیاد پر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی الیکٹرو میگنیٹک ویوز ہیں، جن کی فریکوئنسی مختلف ہے۔

ہرٹز کے ان تجربات کو سائنسی دنیا میں غیرمعمولی اہمیت دی گئی۔ شروع میں ان لہروں کو ’ہرٹزین ویوز‘ کہا گیا، بعد میں انہیں ’ریڈیو ویوز‘ کا نام دیا گیا۔ ہرٹز کی خدمات کے اعتراف میں اب فریکوئنسی کی اکائی کو ’ہرٹز‘ کہا جاتا ہے۔

ہرٹز نے ریڈیو ویوز پیدا کرنے کے لیے اسپارک گیپ جنریٹر استعمال کیا، جو ڈی سی کرنٹ کو آلٹرنیٹنگ وولٹیج میں تبدیل کرتا ہے، اور دونوں سروں پر دھات کے گولے لگانے سے ویوز بنائی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ ویوز آنکھ سے نظر نہیں آتیں، ان کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے ایک خاص قسم کا چھلا بنایا گیا جس میں چھوٹا سا گیپ تھا، تاکہ ویوز کے اثر سے وہاں اسپارک ہو سکے۔ یہ اسپارک بہت مختصر وقت کے لیے ہوتا تھا، اور اسے دیکھنے کے لیے مکمل اندھیرا درکار ہوتا تھا۔

1887 میں ہرٹز نے اپنے استاد ہیلمہولٹز کو تجربے پر مبنی مضمون ارسال کیا، جس میں بڑی عاجزی سے اپنی تحقیق پیش کی۔ ہیلمہولٹز نے اس کی بھرپور تعریف کی اور اسے شائع کروایا۔


ہرٹز نے یہ بھی دریافت کیا کہ الٹراوایولٹ روشنی اسپارک پر اثر ڈالتی ہے، جو بعد میں فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کہلایا — جس پر بعد میں آئن اسٹائن کو نوبیل انعام بھی ملا۔ اس طرح ہرٹز پہلا سائنسدان بن گیا جس نے فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کو دیکھا اور رپورٹ کیا۔

ہرٹز کی تحقیق نے روشنی اور ریڈیو ویوز کے درمیان سائنسی رشتہ ثابت کیا۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ لہریں آئینے سے ریفلیکٹ ہو کر اسٹینڈنگ ویوز بناتی ہیں، جن میں نوڈ اور اینٹی نوڈ ہوتے ہیں۔ انہوں نے ان نوڈز اور اینٹی نوڈز کی مدد سے ویو لینتھ ناپی اور معلوم کیا کہ ان کی فریکوئنسی تقریباً 70 ملین ویوز فی سیکنڈ ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے ویو ایکویشن سے ویوز کی رفتار نکالی، جو تقریباً روشنی کی رفتار کے برابر تھی۔

ہرٹز کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے میکسویل کی تھیوری کو تجرباتی بنیاد فراہم کی اور ریڈیو ویوز کی دریافت کے ذریعے مواصلاتی دنیا میں انقلاب کی بنیاد رکھی۔ ان کی شہرت کی بدولت انہیں جلد ہی بون یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر کیا گیا۔

افسوس کہ ان کی زندگی مختصر ثابت ہوئی۔ 1892 میں ان کے سر میں شدید درد شروع ہوا، جو آگے چل کر خون کے زہر بننے کی وجہ بنا۔ وہ 1894 میں صرف 36 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے جانے سے قبل اگر انہیں چند اور سال مل جاتے، تو شاید وہ خود ہی ریڈیو اور وائرلیس مواصلات کی ایجادات مکمل کر لیتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔