فکر و خیالات

سبزی خوری مسلط کرنے کا رویّہ: انتخاب کی آزادی، تہذیبی تنوع اور اخلاقی تضادات

سبزی خوری کو برتر قرار دے کر سماجی امتیاز، روزگار سے محرومی اور تہذیبی جبر مسلط کیا جا رہا ہے۔ خوراک کا انتخاب فرد کا حق ہے، اسے پاکیزگی اور شناخت کے ہتھیار میں بدلنا ناانصافی اور اخلاقی منافقت ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>

تصویر اے آئی

 

حالیہ دنوں میں ایک ایسی تنظیم کے رہنما کا بیان منظرِ عام پر آیا جس نے اپنے قیام کے سو برس مکمل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گوشت کھانے والے اکثریتی طبقے کے لوگوں کو ملازمت سے نکال کر سزا دی جائے تاکہ وہ گوشت چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ اس بیان کے کئی پہلو ہیں۔ کچھ ترقی پسند کالم نگاروں نے اس جانب اشارہ کیا کہ کم از کم یہ تو تسلیم کیا گیا کہ اکثریتی سماج میں بھی بڑی تعداد گوشت کھاتی ہے۔ ایک سبزی خور کی حیثیت سے میرے ذہن میں کئی سوال اٹھے، کیونکہ یہ صرف کھانے پینے کا معاملہ نہیں بلکہ انتخاب کی آزادی اور انسانی حق کا مسئلہ ہے۔

گزشتہ برسوں میں کھانے کو فرقہ وارانہ سیاست کا آلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان جن قدیم انسانی گروہوں سے وجود میں آیا، وہ سب گوشت کھانے والے تھے۔ ارتقا کے سفر میں یہ نہیں کہ تمام جاندار سبزی خور رہے ہوں۔ آج جن جانوروں کو پالا جاتا ہے، ان میں گائے بیل کی نسلیں سبزی خور ہیں اور دیوہیکل ہاتھی بھی پودوں پر زندہ رہتا ہے۔ یہ وہ اقسام ہیں جن کے جسم میں گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔

Published: undefined

لیکن انسان کا جسم دونوں طرح کی غذا ہضم کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ غیر افریقی انسانوں میں پرانی انسانی نسلوں کے جینیاتی عناصر بھی پائے جاتے ہیں، جو خالص گوشت خور تھیں۔ جدید انسان نے زراعت کو سوچ سمجھ کر ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ اتفاق سے بیج محفوظ رہ گئے اور تقریباً آٹھ ہزار سال قبل سُمیری یعنی موجودہ عراق میں زراعت شروع ہوئی۔ مشرق میں چین میں بھی قریب اسی دور میں دھان بویا جانے لگا۔ ہندوستانی خطے میں مہرگڑھ کے مقام سے ابتدائی زرعی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔

اس زمانے میں کھیتی آج کی طرح منظم نہ تھی۔ شکار اور جنگلی خوراک عام تھی اور غذائی ضرورت زیادہ تر وہیں سے پوری ہوتی تھی۔ اس زمانے کے انسانی ڈھانچوں سے پتہ چلتا ہے کہ کھیتی کی طرف رجحان ہوتے ہی غذائی قلت، کمزور جسم اور کم عمر میں موت بڑھنے لگی یعنی کھیتی کو بہتر خوراک کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ اس نے مستقل سکونت کو جنم دیا۔ زمین اور عورت کی ملکیت کا تصور پیدا ہوا، زمین بڑھانے کی خواہش میں سرحدیں بنیں، بستیاں بڑھیں، ریاست اور بادشاہت وجود میں آئی، جنگ اور تشدد میں اضافہ ہوا۔ تاہم سبزی خوری اور گوشت خوری ساتھ ساتھ جاری رہی۔ مکمل سبزی خوری بہت بعد میں آئی، وہ بھی صاحبِ زمین طبقے میں، کیونکہ جس کے پاس زمین نہ ہو وہ صرف سبزی پر کس طرح گزارہ کرے؟

Published: undefined

اس کا مطلب یہ ہے کہ سبزی خوری کو بھی غیر تشدد سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اگر خوراک کو جانداروں کے نقصان کے تناظر میں دیکھا جائے تو سبزی خوری بھی حیاتیاتی طور پر نقصان سے خالی نہیں۔ کھیتی کے ہر مرحلے—جڑی بوٹیاں نکالنے، زمین پلٹنے اور کٹائی میں بے شمار ذراتی جاندار ختم ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے مہاویر سوامی نے کہا کہ ہر لمحے کے احساس سے واقف رہو، کیونکہ ہر سانس میں بھی کئی جاندار ختم ہوتے ہیں، اس لیے کم سے کم کھاؤ۔ یہی شعور اور عدمِ جمع اصل عدمِ تشدد ہے۔

لیکن تہذیب کے خودساختہ محافظوں کو یہ بات کیسے قبول ہو؟ اس سے نہ تفریق پیدا ہوتی ہے اور نہ سیاسی فائدہ۔ پوری سوچ کو جین روایتی پلیٹ تک محدود کر دیا گیا ہے، جس کے بارے میں روایت ہے کہ آلو نہ کھایا جائے جبکہ آلو مہاویر سوامی کے ہزاروں سال بعد پندرہویں صدی میں پرتگالیوں کے ذریعے یہاں پہنچا اور آج ہندو ورتوں (روزوں) کا واحد سہارا ہے۔

Published: undefined

اکثر سبزی خوری کے نام پر قتل و حملے کو اخلاقی عظمت کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔ محمد اخلاق پر حملہ کون بھول سکتا ہے؟ کھلے عام انڈا بیچنا یا ٹرین میں لے جانا جرم بنا دیا گیا ہے۔ میرے اپنے شہر میں دو عورتوں کو مبینہ طور پر گوشت لے جانے پر پیٹا گیا اور پولیس چوکی بلایا گیا۔ بحث یہ ہوئی کہ گوشت گائے کا ہے یا بھینس کا، کیونکہ بھینس کم تر نسل کا جاندار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ دودھ اسی کا پیا جاتا ہے۔

سمیت کی پہاڑی پر جینوں کا مقدس مقام ہے اور آس پاس کے قبائلی لوگ ہی صدیوں تک وہاں آنے والوں کی مدد کرتے رہے۔ اب ان کا روایتی کھانا جھگڑے کا سبب بن گیا ہے۔ انہی قبائل نے پہاڑ کو محفوظ رکھا، ورنہ کب کا کسی صنعتکار کی ملکیت بن چکا ہوتا۔ وہ پہاڑ ان کا گھر ہے لیکن اب عدمِ تشدد کے دعوے دار انہیں ان کے گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

جنوبی ریاستوں میں اکثریت گوشت کھاتی ہے۔ بنگال اور پہاڑی علاقوں کے اشرافیہ بھی گوشت خور رہے ہیں۔ کچھ برادریوں میں عورتوں کو گوشت کھانے کی اجازت نہیں، حالانکہ شکاری معاشروں میں وہ بھی شکار کرتی تھیں۔ اسکولوں میں دوپہر کے کھانے میں انڈا شامل کرنے سے تمل ناڈو میں بچوں کو بہتر غذائیت ملی مگر فیصلہ والدین کا ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو کھانے یا نہ کھانے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ باپو خود سبزی خور ہونے کے باوجود دوسروں کے خوراک کے انتخاب کی آزادی کے حامی تھے۔ خان عبدالغفار خان کے لیے گوشت پکایا جاتا تھا مگر وہ اسے اصول کے طور پر نہیں تھوپتے تھے۔ اب نئی تعلیم کے اداروں میں بچوں کو صرف سبزی پر مبنی کھانا ملتا ہے۔ بظاہر یہ درست ہے، مگر ان اسکولوں میں دلت، قبائلی، اقلیتی، غریب اور بے زمین طبقات کے بچے پڑھتے ہیں جن کی خاندانی روایت میں گوشت کھانا شامل ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھروں کا پکا کھانا بھی نہیں لا سکتے۔ یوں انہیں بچپن سے ہی احساسِ کمتری اور ناپاکی کے تصور میں دھکیلا جاتا ہے۔

Published: undefined

اگر گاندھی ہوتے تو آخری سانس تک سبزی خور رہتے ہوئے بھی دوسروں کے خوراک کے حق کے لیے ستیہ گرہ کرتے۔ سبزی خوری کے لیے زبردستی کرنا اور تشدد پر اُتر آنا کون سی اخلاقیات ہے؟ کون سی عدمِ تشدد؟ کیا خوراک کا انتخاب پاکیزگی کے نام پر مسلط کیا جا سکتا ہے؟ پاکیزگی صدیوں سے امتیاز کا ہتھیار رہی ہے۔ کسی کے گھر کا پکا گوشت کیا خالص نیت سے تیار نہیں ہوتا؟ قدیم رامائن میں رِشی کے آشرم میں شاہی مہمانوں کے لیے مناسب خوراک تیار کیے جانے کا ذکر ہے۔

یہی ہماری تہذیب ہے جہاں محبت سے کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ سماج کے سب سے نچلے طبقات جو پہلے ہی روزگار سے محروم ہیں اور جن کا ملازمتوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، اب اس بہانے انہیں نکالا جائے گا۔ یہ آنے والی مذہبی ریاست کی نئی روایت ہوگی، یہ یاد رکھنا چاہیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined