ایچ ون بی ویزا / علامتی تصویر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 ستمبر کو ایک چونکانے والا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 21 ستمبر سے ایچ-1 بی ویزا کی فیس ایک لاکھ امریکی ڈالر فی درخواست ہوگی۔ اس اعلان نے ہندوستان کے سب سے بڑے روزگار دینے والے شعبوں میں سے ایک، آئی ٹی سیکٹر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت پر اس کے وسیع تر اثرات کے امکان نے دہلی سے واشنگٹن تک خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
امریکی شہریت و امیگریشن سروس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 30 ستمبر 2019 کو امریکہ میں 5 لاکھ 83 ہزار 420 افراد ایسے تھے جن کے پاس ایچ-1 بی ویزا تھا اور وہ کام کرنے کے مجاز تھے۔ اگر ان کے اہل خانہ اور زیرِ کفالت افراد کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے، جن میں سے تین چوتھائی کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی اس سختی نے ہندوستانی آئی ٹی پروفیشنلز کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہے۔
Published: undefined
ہندوستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ’’اس اقدام سے خاندانوں میں انتشار اور مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، جو انسانی پہلو سے سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ امریکی حکام اس مسئلے کا مناسب حل نکالیں گے۔‘‘
بعد میں وضاحت دی گئی کہ یہ فیس صرف نئے ویزا پر لاگو ہوگی، موجودہ ایچ-1 بی ویزا پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکہ میں ہر سال تقریباً 85 ہزار نئے ویزے جاری ہوتے ہیں۔ اس وضاحت نے وقتی طور پر کچھ لوگوں کو سکون ضرور دیا لیکن چونکہ اعلان مبہم تھا، اس لیے غیر یقینی صورتِ حال بدستور قائم رہی۔ موجودہ ملازمین اگرچہ فی الحال محفوظ ہیں لیکن ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہے کیونکہ تین سال کی مدت کے بعد جب ویزا کی تجدید کا وقت آئے گا، تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ایچ-1 بی ویزا لاٹری کے پورے نظام میں تبدیلی کی جائے گی تاکہ زیادہ تنخواہ لینے والے امیدواروں کو ترجیح دی جا سکے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ نئے یا نسبتاً کم تنخواہ والے ملازمین کے لیے امریکہ جانا مشکل ہو جائے گا۔ اچانک کیے جانے والے ایسے اعلانات اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور وقت کے ساتھ کمپنیاں ملازمین کو نکالنے پر مجبور ہوسکتی ہیں، جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
Published: undefined
سنہ 2023 میں صدر جو بائیڈن کے دور میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک سینیٹروں نے بھی ایک بل پیش کیا تھا جس کا مقصد ایچ-1 بی نظام میں اصلاحات لانا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام امریکی کارکنوں کی جگہ سستے غیر ملکی مزدوروں کو لا کر مقامی روزگار پر ضرب لگا رہا ہے، حالانکہ اس نظام کا اصل مقصد عالمی سطح کی صلاحیتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔
ایچ-1 بی کے غلط استعمال کے خلاف امریکی عوام میں بڑھتا غصہ ٹرمپ کے تازہ ترین اقدام میں جھلکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’کمپنیوں نے اس پروگرام کی آڑ میں مزدوری کے اخراجات کو مصنوعی طور پر کم رکھا، آئی ٹی شعبے کے اپنے پرانے ملازمین کو نکال دیا اور کم تنخواہ پر غیر ملکی ورکرز کو بھرتی کر لیا۔ اس کے نتیجے میں امریکی گریجویٹس کے لیے نوکریاں حاصل کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
بڑی امریکی کمپنیاں بھی اخراجات کم کرنے کے لیے ویزا پروگرام کا غلط استعمال کرتی رہی ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ہندوستانی کمپنیوں نے ایچ-1 بی پر اپنی انحصار کم کر کے مقامی امریکی ملازمین کو بھرتی کرنا شروع کیا ہے لیکن نئے فیصلے کا مجموعی منفی اثر پورے آئی ٹی سیکٹر پر ضرور پڑے گا۔
Published: undefined
2010 سے 2025 کے درمیان انڈین آئی ٹی کمپنیاں- ٹی سی ایس، انفوسس، وپرو اور کوگنیزنٹ ایچ-1 بی ویزا حاصل کرنے میں سب سے آگے رہی ہیں۔ مگر 2025 کی پہلی ششماہی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب صرف ٹی سی ایس ہی ٹاپ 10 میں ہے، جبکہ باقی سب امریکی کمپنیاں ہیں، جیسے کہ ایمیزون، مائیکروسافٹ، گوگل، میٹا، ایپل، جے پی مورگن چیس، والمارٹ اور ڈیلوئٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈین کمپنیوں نے بدلتے حالات کو پہلے ہی بھانپ کر اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کر لی تھی۔ اس کے باوجود اگر نئی فیس پالیسی برقرار رہی تو انڈین کمپنیوں کو اقتصادی نقصان جھیلنا پڑے گا۔
درحقیقت، امریکہ میں بڑھتی ہوئی تارکینِ وطن مخالف سوچ، ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ سیاست، شدید سیاسی تقسیم اور امریکیوں کے لیے زیادہ روزگار پیدا کرنے کا دباؤ—ان سب نے مل کر ایچ-1 بی کو آسان نشانہ بنا دیا ہے۔
ہندوستانی آئی ٹی کمپنیوں پر ہمیشہ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے سستی مزدوری پر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ وہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ ان کی اصل کامیابی معیار اور خدمات میں ہے، قیمت میں نہیں۔ دونوں باتوں میں کسی نہ کسی حد تک سچائی ہے۔
Published: undefined
ہندوستان کا آئی ٹی سیکٹر تقریباً پانچ دہائی پرانا ہے۔ ٹی سی ایس 1968 میں قائم ہوئی تھی اور ’ملینیم بگ‘ (وائی ٹو کے) کے بحران نے اس صنعت کو عالمی سطح پر نمایاں موقع دیا۔ تین دہائیوں تک یہ صنعت پھلتی پھولتی رہی لیکن اس عرصے میں جدت پسندی یا اختراع کی رفتار سست رہی۔ انڈین کمپنیاں زیادہ تر اکاؤنٹ مینجمنٹ اور سروسز پر اٹکی رہیں، بڑے پیمانے پر نئی ایجاد یا تحقیق میں سرمایہ نہیں لگایا۔
ہندوستان میں نوجوان ٹیلنٹ نے اپنے قیمتی سال اس امید پر اس شعبے میں کھپا دیے کہ ایک دن وہ بھی امریکہ پہنچیں گے۔ اس بیچ آئی ٹی سیکٹر کو ’ہفتے میں 70 گھنٹے کام‘ جیسے بیانات کے سبب کڑی تنقید کا سامنا رہا، جنہیں توہین آمیز سمجھا گیا۔
دنیا میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) انقلاب برپا کر رہی ہے، ہندوستان اور اس کا آئی ٹی سیکٹر مستقبل کے ان نئے مواقع میں پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔ ہم نے دوسروں کی اچھی خدمت کی ہے مگر اب لگتا ہے کہ وہ ہمیں نہیں چاہتے اور ہمیں خود بھی معلوم نہیں کہ آگے کا راستہ کیا ہونا چاہیے۔
(مضمون نگار جگدییش رتنانی صحافی اور ایس پی جے آئی ایم آر میں فیکلٹی ہیں۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔ بشکریہ دی بلین پریس)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined