چاند گرہن: سائنسی اور قدرتی مناظر کی دلچسپ کہانی
مکمل چاند گرہن کی سائنسی وضاحت، زمین کے سایے کے حصے، چاند کے سرخ دکھائی دینے کا مظہر اور گرہن کے وقوع پذیر ہونے کے قدرتی اصول کا تفصیلی بیان

جب سے انسان نے ہوش سنبھالا، اس نے اپنی زندگی اور ماحول کی حفاظت کے لیے آسمانی مظاہر کو دیوتاؤں سے جوڑا۔ چونکہ انسان جنگلی جانوروں کے مقابلے میں کمزور تھا، اسے ہر وقت اپنی جان اور ماحول کی حفاظت کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ جو چیزیں اس کی گرفت سے باہر تھیں، اسے انسان نے دیوی دیوتا سمجھ کر خوشامد کی اور اپنے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔
آسمان میں ستاروں کے علاوہ سورج اور چاند انسان کے لیے سب سے اہم مظاہر تھے۔ سورج زمین پر زندگی کے لیے نہایت ضروری تھا اور رات کے اندھیرے میں چمکتا ہوا چاند بھی ہمیشہ حیرت کا سبب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے سورج اور چاند کو اہم دیوتا تصور کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ابھرتی تہذیبوں نے ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے مختلف کہانیاں بنائیں اور یہ کہانیاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا حصہ بن گئیں۔
رات کے اندھیرے میں چمکتا چاند ہمیشہ نظموں، کہانیوں، تصویروں اور روایتی قصوں کا حصہ رہا ہے۔ ان کہانیوں میں سورج اور چاند گرہن کو دیوتاؤں کے غصے یا انسانی گناہوں کی سزا کے طور پر دیکھا گیا اور ہزاروں طریقوں سے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے پوجا، منتر اور رسمیں رائج کی گئیں۔ یہ کہانیاں انسانی تجسس کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ان پر یقین کرتے ہیں، حالانکہ نیوٹن کی تحقیق کے بعد سائنس نے یہ تمام تصورات غلط ثابت کر دیے ہیں۔ اس مضمون میں ہم صرف چاند گرہن کی سائنسی وضاحت کریں گے۔
چاند گرہن تب ہوتا ہے جب زمین، سورج اور چاند اس طرح ترتیب میں آ جائیں کہ زمین کا سایہ چاند پر پڑے۔ یہ ایک نایاب موقع ہے جب ہم زمین کے سایے کو براہِ راست دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھنا ضروری ہے کہ چاند خود روشنی پیدا نہیں کرتا، بلکہ سورج کی روشنی سے روشن دکھائی دیتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق چاند تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل وجود میں آیا۔ تب سے ہر سال کئی بار چاند گرہن وقوع پذیر ہو رہا ہے، یعنی انسانی زندگی یا کسی بھی قسم کی زندگی کے شروع ہونے سے بہت پہلے سے۔ چاند یا سورج گرہن کسی انسانی عمل یا عقیدے کے تابع نہیں ہیں، بلکہ یہ قدرتی اصولوں کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ نیوٹن کی تحقیقات کی بدولت ہم ان حرکات کو سمجھ سکتے ہیں اور ہزاروں سال پہلے یا بعد میں گرہن کب ہوگا، یہ آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں۔
چاند زمین کے گرد تقریباً ایک ماہ میں ایک مکمل چکر لگاتا ہے اور اتنی ہی مدت میں اپنے محور پر بھی ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اسی لیے ہم زمین سے چاند کا صرف ایک ہی رخ دیکھ پاتے ہیں۔ اگرچہ چاند کا یہ چکر ہر ماہ مکمل ہوتا ہے لیکن ہر ماہ چاند گرہن نہیں ہوتا، کیونکہ چاند کا مدار زمین کے مدار سے تقریباً پانچ ڈگری ہٹا ہوا ہے۔ اس وجہ سے سال میں صرف دو یا تین بار ایسا ہوتا ہے کہ چاند زمین کے سایے سے گزرتا ہے اور گرہن رونما ہوتا ہے۔
زمین کے سایے کے تین حصے ہیں، پین امبرا، امبرا اور اینٹ امبرا سب سے گہرا حصہ، جسے ’امبرا‘ کہتے ہیں، یہاں سورج کی روشنی بالکل نہیں پہنچتی۔ زمین کا قطر چاند کے مقابلے میں تقریباً تین اعشاریہ سات گنا بڑا ہے اور امبرا تقریباً چودہ لاکھ کلومیٹر تک مخروط کی شکل میں پھیلا ہوا ہے۔ چاند جب امبرا سے گزرتا ہے تو پورا چاند گرہن ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ہم چاند پر موجود ہوں تو وہاں سے سورج گرہن نظر آئے گا۔
پورے چاند گرہن کے دوران چاند سرخ دکھائی دیتا ہے، جسے خون نما چاند کہا جاتا ہے۔ زمین کے کنارے سے گزرتی سورج کی روشنی میں موجود نیلے رنگ کی شعاعیں ہوا میں بکھر جاتی ہیں، جبکہ سرخ روشنی زمین کے کنارے سے مڑ کر چاند تک پہنچتی ہے اور ہمیں یہ سرخ نظر آتا ہے۔ ہوا میں آلودگی جتنی زیادہ ہوگی، چاند اتنا زیادہ سرخ دکھائی دے گا۔
دن کے وقت آسمان نیلا نظر آتا ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں نیلے رنگ کی شعاع کی لمبائی کم ہونے کی وجہ سے زیادہ بکھر جاتی ہے۔ اگر ہم زمین سے لاکھوں میل دور راکٹ میں جائیں تو آسمان کالا دکھائی دے گا۔
سایہ کا وہ حصہ جو پینمبرا کہلاتا ہے، امبرا کے ارد گرد پھیلا ہوا ہے اور یہاں سورج کی روشنی جزوی طور پر کم ہوتی ہے۔ چاند جب پینمبرا سے گزرتا ہے تو روشنی میں تقریباً دس فیصد کمی آتی ہے، اس لیے ہمیں فرق محسوس نہیں ہوتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔