فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فریب...اشوک سوین
یورپی ممالک کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا اس وقت تک محض علامتی اقدام ہے، جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ تجارت، ہتھیاروں کے سودے اور سیاسی سرپرستی ختم نہیں کرتے

طویل خاموشی کے بعد مغربی راجدھانیاں ایک بار پھر فلسطین پر بات کر رہے ہیں۔ برطانیہ، فرانس، بیلجیئم، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ محض ’اتفاق‘ نہیں بلکہ داخلی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ان ملکوں میں عوامی غصہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکومتوں کے لیے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اب وہ اپنی خاموشی اور اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کی سیاسی قیمت کا حساب لگانے پر مجبور ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی جنگ کو دو سال ہو چکے ہیں اور اب تک اندازاً چھ لاکھ اسی ہزار فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی دینے والی قتلِ عام کی ہولناک تصویریں بیان سے باہر ہیں۔ دنیا کی بے حسی ناقابلِ یقین ہے، جبکہ اسرائیل کو حاصل ’سزا سے چھوٹ‘ نام نہاد قوانین پر مبنی عالمی نظام کا مذاق اڑا رہی ہے۔
غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا، عالمی فوجداری عدالت نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ جاری کیے اور اقوامِ متحدہ کی کمیشن رپورٹ نے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب ٹھہرایا۔ اس سب کے باوجود قتلِ عام جاری ہے۔ چنانچہ تاخیر سے تسلیم کرنے کا اقدام آخر کس کام کا؟ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے علامتی اقدامات کبھی حقیقی خودمختاری میں نہیں ڈھلتے۔ 1967 سے فلسطینی فوجی تسلط کے نیچے ہیں اور مزاحمت اور سفارت کاری دونوں راستوں سے ریاستی درجہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
تسلیم کرنے کے اس اقدام سے نہ تو اقتصادی مفاد قربان ہوگا، نہ واشنگٹن سے ٹکراؤ اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ یورپ کی طویل حمایت متاثر ہوگی۔ جب تک تجارت، اسلحہ کی منتقلی، کارپوریٹ تعلقات اور اسرائیل کو سفارتی طور پر بلیک لسٹ کرنے جیسے اقدامات نہیں ہوتے، یہ تسلیم کا کھوکھلا مظاہرہ رہے گا۔ داخلی ناراضگی کم کرنے کی کوشش شاید کامیاب بھی نہ ہو۔
امریکہ نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو دکھاوا قرا دیا ہے۔ مگر خود اس کی نکتہ چینی بھی اسرائیل کے حق میں ڈھکی چھپی حمایت ہے۔ واشنگٹن نے واضح کیا کہ اگر یورپ نے اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام کیا تو نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اسرائیلی وزرا تو کھلم کھلا مغربی کنارے کے مزید حصے پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔
سعودی عرب نے ضم کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات، جس نے اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدے پر دستخط کیے تھے، بھی کہتا ہے کہ یہ حدِ برداشت ہوگی۔ قطر، سعودی عرب اور یو اے ای دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد ردعمل کی تیاری میں ہیں۔ 8 ستمبر کو قطر، جہاں سب سے بڑا امریکی فضائی اڈہ ہے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی حملہ برداشت کرنے والا ساتواں عرب ملک بنا۔
امریکہ نے کبھی یورپ کو اسرائیل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ واشنگٹن ہی اسرائیل کی فوجی ڈھال، مالی سہارا اور سفارتی تحفظ ہے۔ یورپ اس نظام میں محض ایک چھوٹا کھلاڑی ہے جو اسرائیل کے ساتھ تجارتی و سائنسی فائدے سمیٹتا ہے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اس علامتی اقدام سے مساوات پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔
اعداد و شمار اس حقیقت کو اور واضح کرتے ہیں۔ 2024 میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تجارت 42.6 بلین یورو رہی، جو پچھلے سال سے زیادہ ہے۔ اسرائیل کا 32 فیصد برآمدی مال یورپی یونین میں گیا۔ دفاعی سودے بھی بڑھ کر 14.7 بلین ڈالر ہو گئے، جن میں نصف سے زیادہ یورپی ملکوں سے تھے۔
اسرائیل کی بستیاں پھیلتی رہیں، مگر یورپ نے تجارتی و ادارہ جاتی تعلقات مزید گہرائے۔ 1995 سے فری ٹریڈ معاہدہ ہے۔ 2010 میں زرعی تجارت بڑھی، 2013 میں دواؤں کے لیے باہمی منظوری کا نظام آیا اور 2018 میں اوپن اسکائی ایوی ایشن ڈیل ہوئی۔ بستیوں کی پیداوار کو استثنیٰ سے نکالنے کا اعلان محض نمائشی ہے۔ اس نے نہ نوآبادیات روکی اور نہ ہی سست کی۔
یورپ نے اسرائیل کو مالی اور ادارہ جاتی فائدے بھی دیے۔ وہ اب بھی یورپی یونین کی ’جنوبی پڑوس حکمتِ عملی‘ میں ایک خصوصی شریک ہے، حالانکہ وہی اس تباہ کن جنگ کا آغاز کرنے والا ہے۔
عسکری اور کارپوریٹ مفادات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اکیلا جرمنی ہی اسرائیل کے اسلحہ کا ایک بڑا سپلائر ہے اور غزہ کے کھنڈر بن جانے کے باوجود اس نے اسرائیل کو اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ البتہ اسپین نے اس ماہ اسرائیل کے ساتھ تمام اسلحہ سودے منسوخ کر دیے ہیں لیکن یورپی یونین کی سطح پر ایسی کوئی جامع پابندی عائد نہیں کی گئی۔ جولائی 2024 میں عالمی عدالتِ انصاف نے واضح کر دیا تھا کہ ریاستوں کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی حالات کو کسی بھی شکل میں سہارا یا تعاون فراہم نہیں کرنا چاہیے۔ اسلحہ اور سکیورٹی ٹیکنالوجی کی تجارت جاری رکھ کر یورپی ممالک جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شراکت دار بن رہے ہیں۔
یہ تضاد کھل کر سامنے آتا ہے۔ ایک طرف یورپی رہنما اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور ’دو ریاستی حل‘ پر سربراہی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ان کی حکومتیں اسلحہ فروخت کرتی ہیں، اربوں یورو کے معاہدوں کی حفاظت کرتی ہیں اور اسرائیل کو سخت پابندیوں سے بچاتی ہیں۔
یورپی کمیشن نے یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے کچھ حصے معطل کرنے اور کچھ درآمدات پر محصولات عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے مگر بڑے رکن ممالک اسے روکنے پر آمادہ ہیں۔ اگر یہ منظور بھی ہو جائے تو اربوں ڈالر کی تجارتی شراکت میں اسرائیل کو پہنچنے والا نقصان معمولی ہوگا۔ یہ دباؤ نہیں بلکہ محض سیاسی دکھاوا ہے۔
یورپ کی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سے جھجک کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ پورے براعظم کی مرکزی سیاست انتہائی دائیں بازو کی سوچ سے خوفزدہ ہے۔ اسلاموفوبیا اور تارکینِ وطن مخالف غصے پر پلنے والی جماعتیں پہلے ہی ’تسلیم‘ کے اقدام پر حملہ آور ہو چکی ہیں۔ رہنما ہر قدم پر عوامی ردِعمل کے خطرے کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ یہی بتاتا ہے کہ تسلیم کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی اور حکومتیں اب بھی ایسے اقدامات سے کیوں کترا رہی ہیں جو اسرائیلی رویے کو بدل سکیں۔
اسرائیل ان تقسیمات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ برسوں سے اس نے ہنگری، چیک ریپبلک، آسٹریا اور جرمنی کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے ہیں تاکہ کسی بھی اتفاقِ رائے کو روکا جا سکے۔ اسرائیلی سفارت کاری کا مرکز دو طرفہ معاہدے ہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ برسلز میں ایک ویٹو اجتماعی کارروائی کو مفلوج کر سکتا ہے۔
یہ جمود یورپ کی ساکھ کو کمزور کر رہا ہے۔ وہی حکومتیں جو روس کے یوکرین پر قبضے کی مذمت کرتی ہیں، اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھتی ہیں، جبکہ اسرائیل فلسطینی زمین پر اپنا کنٹرول بڑھاتا جا رہا ہے۔ وہی رہنما جو ایک جنگ میں جوابدہی کی بات کرتے ہیں، عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے مطلوب حکومت سے تعاون ختم کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔
فلسطینیوں کو }دو ریاستی حل{ کے لیے مزید نمائشی حمایت کی ضرورت نہیں۔ انہیں عالمی برادری کی ضرورت ہے کہ وہ اس ریاست کو سرمایہ، اسلحہ اور قانونی جواز دینے سے روکے جو انہیں تباہ کر رہی ہے۔ جب تک یورپ تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت، اسلحہ، کارپوریٹ تعلقات اور سفارتی تحفظ پر حقیقی دباؤ نہیں ڈالتا، اس کے اقدامات کھوکھلے رہیں گے۔ ’تسلیم‘ کرنے کا یہ علامتی اقدام نہ تو انضمام کو روک سکے گا، نہ بمباری رکے گی، نہ بھوکوں کو کھانا ملے گا اور نہ ہی قیدیوں کو آزادی مل سکے گی۔
(مضمون نگار اشوک سوین، سویڈن کے اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازعہ کے پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔