فکر و خیالات

بہار ڈائری: ووٹر فہرست پر تنازعہ، راجیو پرتاپ روڈی کے پوسٹر اور بی ایس پی کا چیلنج

بہار میں ووٹر فہرست پر 89 لاکھ شکایات مگر الیکشن کمیشن تردید کر رہا ہے۔ روڈی کے پوسٹرز نے بی جے پی سے فاصلے کے اشارے دیے، جبکہ بی ایس پی کے اکیلے لڑنے کے اعلان نے سبھی جماعتوں کی حکمت عملی بدل دی

<div class="paragraphs"><p>بہار ڈائری / تصاویر آئی اے این ایس اور ایکس</p></div>

بہار ڈائری / تصاویر آئی اے این ایس اور ایکس

 

بہار کی سیاست میں انتخابی موسم کے قریب آتے ہی کئی پہلو سامنے آنے لگے ہیں۔ ایک طرف ووٹر فہرست میں بے ضابطگیوں پر کانگریس اور الیکشن کمیشن کے بیچ تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، تو دوسری طرف بی جے پی کے سینئر لیڈر راجیو پرتاپ روڈی کے پوسٹرز نے نئی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ اسی دوران بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ریاست کی تمام اسمبلی نشستوں پر الیکشن لڑے گی۔ یہ تینوں موضوعات مل کر بہار کی بدلتی ہوئی انتخابی بساط کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔

انتخابی فہرست پر تنازعہ

31 اگست کو کانگریس کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے کہا کہ بہار میں ہوئی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) میں بے ضابطگیوں سے جڑی 89 لاکھ شکایات کی گئی تھیں مگر الیکشن کمیشن نے سب کو خارج کر دیا۔ کھیڑا کا کہنا تھا کہ یہ شکایات زیادہ تر ان ووٹروں کی طرف سے آئیں جن کے نام فہرست سے ہٹا دیے گئے تھے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے یہ دعویٰ کر کے سب کو حیران کر دیا کہ اسے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

Published: undefined

یہ سوال بھی اٹھا کہ آخر شکایات کی تعداد نام کٹنے کی تعداد سے زیادہ کیسے ہو گئی؟ الیکشن کمیشن کے مطابق صرف 65 لاکھ ووٹروں کے نام کاٹے گئے ہیں۔ بہار کانگریس کے ترجمان راجیش راٹھور نے وضاحت کی کہ شکایات صرف نام کٹنے تک محدود نہیں تھیں، بلکہ اس میں غلطیوں اور نئے نام شامل کرنے کے معاملات بھی شامل تھے۔ کئی ووٹروں کو بار بار مختلف وجوہات سے شکایت درج کرنی پڑی، اس لیے تعداد بڑھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے خود ہی کہا کہ شکایات ’غلط فارمیٹ‘ میں درج کی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کمیشن کہتا ہے کہ اسے ایک بھی شکایت نہیں ملی، تو پھر یہ کیسے طے کیا گیا کہ شکایات درست فارمیٹ میں نہیں تھیں؟ راٹھور نے بھی اس پر سوال اٹھایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن محض طریقۂ کار کی آڑ میں اصل بے ضابطگیوں پر پردہ ڈال رہا ہے۔

Published: undefined

کھیڑا نے مزید کہا کہ کانگریس کے بوتھ لیول ایجنٹس نے متاثرہ ووٹروں کی طرف سے شکایات درج کرنے کی کوشش کی تھی اور انہیں ضلع الیکشن افسران کے پاس جمع کرایا گیا تھا مگر انہیں بتایا گیا کہ شکایات صرف عام ووٹروں سے قبول کی جائیں گی، سیاسی جماعتوں سے نہیں۔ اس طرح کانگریس کے شکایات جمع کرانے کا راستہ ہی بند کر دیا گیا۔

راجیو پرتاپ روڈی کے پوسٹر

اسی درمیان بی جے پی کے رکن پارلیمان راجیو پرتاپ روڈی نے سمستی پور کے دورے پر ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔ شہر میں ان کے پوسٹر لگائے گئے جن میں وہ مہارانا پرتاپ کے ساتھ دکھائی دیے اور نعرہ تھا ’جے سانگا‘۔ ان پوسٹروں پر نہ بی جے پی کا نام تھا، نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر۔

Published: undefined

یہ پوسٹر صاف طور پر راجپوت شناخت اور وقار کو اجاگر کرنے کی کوشش لگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا روڈی بی جے پی سے فاصلے بنا رہے ہیں یا پھر وہ مختلف جماعتوں کے راجپوت ووٹروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ بہار میں راجپوت آبادی تقریباً چار فیصد ہے اور یہ طبقہ روایتی طور پر بی جے پی کا حامی رہا ہے، خاص طور پر ان سیٹوں پر جہاں پارٹی کسی راجپوت امیدوار کو میدان میں اتارتی ہے۔

پوسٹروں میں وزیر اعظم کی تصویر کا نہ ہونا ایک اور بحث کو جنم دیتا ہے کہ کیا بہار میں مودی کی مقبولیت گھٹ رہی ہے؟ راجگیر میں حالیہ ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ کے دوران بھی مودی کی تصاویر والے ہورڈنگ نہیں لگے تھے، وہاں صرف وزیر اعلیٰ نتیش کمار چھائے رہے۔

Published: undefined

راجپوتوں کی ناراضگی بی جے پی کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے اورنگ آباد، آرہ اور کاراکاٹ جیسی اہم سیٹیں انڈیا بلاک کے ہاتھوں گنوا دیں۔ آرہ سے مرکزی وزیر آر کے سنگھ ہار گئے، بکسر میں آر جے ڈی کے سودھاکر سنگھ جیتے اور اورنگ آباد میں آر جے ڈی کے ابھی کشواہا نے بی جے پی امیدوار کو شکست دی۔

روڈی اور بی جے پی کے درمیان فاصلے نئی دہلی میں کانسٹی ٹیوشن کلب کے سکریٹری کے انتخاب میں بھی ظاہر ہوئے۔ اس عہدے کے لیے روڈی کا مقابلہ بی جے پی کے ہی رکن پارلیمان سنجیو بالیان سے ہوا، جنہیں عام طور پر وزیر داخلہ امت شاہ کا قریبی مانا جاتا ہے۔ روڈی نے یہ انتخاب جیت لیا اور یہ جیت زیادہ تر اپوزیشن کے تعاون سے ممکن ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ مانا جا رہا ہے کہ روڈی اور بی جے پی کے تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے۔

Published: undefined

بی ایس پی کا اعلان

بہار کے سیاسی منظرنامے میں ایک اور اہم پہلو بہوجن سماج پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ اسمبلی کی تمام سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ اگرچہ یہ حیران کن اعلان نہیں ہے کیونکہ بی ایس پی ہمیشہ بڑی تعداد میں امیدوار کھڑی کرتی رہی ہے۔ 2020 میں پارٹی نے 4.17 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دو سیٹیں جیتی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ بی ایس پی کے اس فیصلے سے نقصان کس کو ہوگا؟ کانگریس کے رہنما شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اصل ترجیح اپنی پارٹی کو زندہ رکھنا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے امیدوار کس علاقے میں کھڑے ہوتے ہیں، اس کا براہِ راست اثر انتخابی نتائج پر پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ کئی پرانے بی ایس پی لیڈر جیسے ذاکر حسین اور منوج رام اب کانگریس میں شامل ہو چکے ہیں۔

Published: undefined

سی پی آئی (ایم ایل) کے رہنما کنال کا خیال ہے کہ یہ ماننا غلط ہوگا کہ بی ایس پی صرف انڈیا بلاک کے ووٹ کاٹے گی۔ ان کے مطابق این ڈی اے کو بھی اتنا ہی نقصان ہوگا، خاص طور پر کیمور اور روہتاس جیسے اضلاع میں جو اتر پردیش سے لگتے ہیں۔ بہار کی تقریباً 20 فیصد دلت آبادی کئی جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے، جن میں ہم (سیکولر)، ایل جے پی اور جے ڈی یو بھی شامل ہیں۔ ایسے میں بی ایس پی کی موجودگی یقینی طور پر انتخابی بساط کو پیچیدہ بنا دے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined