بہار میں اڈانی گروپ کو 1000 ایکڑ زمین دینے کے خلاف عظیم الشان احتجاج / تصویر پرناؤ چودھری
بہار اسمبلی انتخابات سے قبل حکومت کے ایک فیصلے نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ اڈانی گروپ کو بجلی گھر قائم کرنے کے لیے ایک ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین محض ایک روپے فی ایکڑ کے حساب سے سالانہ لیز پر دی گئی ہے۔ اپوزیشن اسے عوام کے مفاد کے خلاف اور سرمایہ دار نواز پالیسی قرار دے رہی ہے، جبکہ حکومت اس منصوبے کو ریاست میں سرمایہ کاری اور روزگار لانے کا ذریعہ بتا رہی ہے۔
جھارکھنڈ کی مثال یاد آتی ہے، جب ایک مقامی ٹریڈ یونین رہنما نے طنزیہ کہا تھا کہ اگر ایک ہزار روپے سالانہ پر ایک ہزار ایکڑ زمین انہیں ملے تو وہ بھی سرمایہ اور روزگار پیدا کرسکتے ہیں۔ اس وقت جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے ٹاٹا گروپ کے لیے زمین کی لیز کی تجدید انتہائی کم شرح پر کر دی تھی۔ بعد میں اڈانی گروپ کو بھی گوڈا میں 1600 میگاواٹ کا بجلی گھر لگانے کے لیے اسی طرز پر زمین دی گئی، جس پر کسانوں نے زبردستی قبضہ، دھمکی اور پولیس تشدد کے الزامات عائد کیے۔
Published: undefined
اب معاملہ بہار کے بھاگلپور ضلع کے پیرپینتی کا ہے، جہاں کوئلے پر مبنی 2400 میگاواٹ کا بجلی گھر لگایا جانا ہے۔ یہاں 11 ستمبر 2025 کو حکومت نے اڈانی گروپ کو زمین سونپ دی اور 25 سے 33 سال کے لیے لیز معاہدہ طے ہوگیا۔ منصوبے کی لاگت 25,000 کروڑ روپے بتائی گئی ہے اور اسے 2028-30 کے درمیان مکمل کرنے کا ہدف ہے۔ معاہدے کے تحت اگلے 25 سال تک بجلی 6.75 روپے فی یونٹ کی شرح سے فراہم کی جائے گی۔ ناقدین کے مطابق یہ شرح مہاراشٹر اور اتر پردیش کے صارفین سے کہیں زیادہ ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ یہ منصوبہ این ٹی پی سی جیسے سرکاری ادارے کے بجائے نجی کمپنی کو کیوں سونپا گیا، حالانکہ این ٹی پی سی بھاگلپور کے کہلگاؤں میں پہلے ہی بجلی گھر چلا رہی ہے۔ دیہی سطح پر بھی خدشات اور خوف نمایاں ہیں۔ بعض کسانوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی ایم ایل اے نے صاف دھمکی دی ہے کہ جو مخالفت کرے گا، اسے جیل جانا ہوگا۔
Published: undefined
وزیراعظم نریندر مودی نے 15 ستمبر کو اس بجلی گھر کا ورچوئل سنگ بنیاد رکھا، اسی دوران کئی کسانوں کو نظر بند یا گرفتار کرلیا گیا۔ حتیٰ کہ مقامی پنچایت کے سربراہ دیپک سنگھ کو بھی اسی روز جیل بھیج دیا گیا۔ اس سب سے عوامی بے چینی مزید بڑھ گئی۔
بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی (ایم ایل-لبریشن) کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پیرپینتی کا دورہ کیا اور رپورٹ دی کہ کملاپور کے کم از کم 65 خاندانوں کو گھروں سے بے دخل کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی بازآبادکاری منصوبہ موجود نہیں۔ ٹیم کے رکن شیو ساگر شرما نے کہا، ’’اڈانی کے خلاف بولنا ہی جیل بھیجنے کے لیے کافی ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘
اصل تنازعہ زمین کے حصول کا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب حکومت نے زمین لی تھی، تب بھی آم اور لیچی جیسی نقد آور فصلوں والی زمینوں کے لیے دیا گیا معاوضہ بازار قیمت سے کہیں کم تھا۔ اب ایک بار پھر انہیں کمزور اور بے بس کر کے زمین چھینی جا رہی ہے۔
Published: undefined
سیاسی سطح پر یہ معاملہ شدید تنقید کا باعث بن گیا ہے۔ آر جے ڈی، کانگریس، بائیں بازو کی جماعتوں اور سی پی آئی (ایم ایل) نے اسے ’’اڈانی کو چھپر پھاڑ فائدہ‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے معاملے کو عوامی جانچ سے بچانے کی کوشش کی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور مقامی یوٹیوبرز کو دباؤ میں لا کر منصوبے کے حق میں پروپیگنڈا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی خطرات بھی بڑے پیمانے پر اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ مجوزہ بجلی گھر کہلگاؤں کے این ٹی پی سی پلانٹ (2340 میگاواٹ) سے صرف 20-30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جبکہ گوڈا کا اڈانی پلانٹ (1600 میگاواٹ) بھی محض 60 کلومیٹر دور ہے۔ یعنی 75 کلومیٹر کے دائرے میں کوئلے پر مبنی بجلی گھروں کا گہرا جال بن جائے گا، جو ماہرین کے مطابق ہوا و پانی کی آلودگی، سانس کی بیماریوں، تیزابی بارش اور فصلوں کو نقصان کا سبب بنے گا۔
Published: undefined
اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 38 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی وکرم شیلہ مہاویہار کی قدیم عمارتیں بھی خطرے میں ہیں۔ ماہرین کا اندیشہ ہے کہ تیزابی اثرات وہاں کے پتھر کے ڈھانچوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے اڈانی گروپ کو نہ صرف زمین دی ہے بلکہ گنگا سے پانی کی سپلائی اور ریل کے ذریعے کوئلے کی ترسیل کی سہولت کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ کھلے عام ’’اقربا پروری‘‘ کا ثبوت ہے۔
بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی (ایم ایل) نے 21 ستمبر کو ریاست گیر احتجاج کیا اور پارٹی کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے بھی اسے قومی سطح پر موضوع بنایا۔ کانگریس اور آر جے ڈی بھی اس معاملہ کو مختلف پلیٹ فارموں پر اٹھا رہے ہی۔ فوری طور پر پلانٹ کی تعمیر شروع ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ ابھی راکھ ذخیرہ کرنے اور ریل یارڈ کے لیے مزید زمین درکار ہے۔ تاہم پیرپینتی منصوبے نے جو سیاسی آگ بھڑکائی ہے، وہ بہار کی انتخابی سیاست کو نئی سمت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined