تصویر شاہد صدیقی علیگ / اے آئی
برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے بے شمار جیالے طلبہ نے اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا، ان میں ایک نمایاں نام انصار ہروانی کا بھی ہے۔ ان کی پیدائش 16 فروری 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کے ردولی گاؤں میں ایک معزز اور تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد چودھری سراج الحق تھے، جبکہ معروف شاعر اسرار الحق مجاز ان کے حقیقی بھائی تھے، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانے کے خالق بھی ہیں۔
Published: undefined
انصار ہروانی کا تعلیمی سفر امین آباد ہائی اسکول، چرچ مشن اسکول (لکھنؤ) اور سینٹ جان اسکول (آگرہ) سے ہوتا ہوا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک پہنچا، جہاں سے انہوں نے بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران وہ برطانوی حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔ ابتدا میں وہ جواہر لال نہرو سے متاثر تھے، مگر بعد میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کے نظریات کے حامی بن گئے۔ انہوں نے آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے آئی ایس ایف) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور تین سال تک اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ ان ہی کی قیادت کا اثر تھا کہ 1937 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی مخالفت کرتے ہوئے اے آئی ایس ایف کے ساتھ اتحاد کی قرارداد منظور کی۔
Published: undefined
ان کی انقلابی سرگرمیوں کے سبب برطانوی حکام نے انہیں یونیورسٹی سے خارج کروا دیا اور ملک کی دیگر جامعات کے دروازے بھی ان پر بند کر دیے گئے، مگر وہ جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹے۔ انہوں نے عوامی بیداری کے لیے پرچے اور اشتہارات تقسیم کیے، جس کی پاداش میں 1940 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا، اگرچہ 1941 میں رہائی ملی لیکن وہ دوبارہ سرگرم ہو گئے اور ’بھارت چھوڑو تحریک’ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس کے نتیجے میں انہیں مزید چار سال قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔
آزادی کے بعد وہ دو مرتبہ فتح پور اور بسولی لوک سبھا حلقے سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے آل انڈیا فاورڈ بلاک، آل انڈیا مسلم یوتھ اور انڈین نیشنل کانگریس میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ وہ دو قومی نظریے کے شدید مخالف تھے، مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔
Published: undefined
انصار ہروانی نے صحافت کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا۔ وہ امرت بازار پتریکا میں خصوصی اسٹاف رپورٹر اور نیشنل ہیرالڈ میں چیف رپورٹر رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تاریخ اور سیاست پر کئی اہم کتابیں تحریر کیں۔ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت وہ زندگی کے آخری لمحے تک متحرک رہے۔
28 اکتوبر 1996 کو یہ عظیم مجاہدِ آزادی اس دنیا سے رخصت ہو گیا، مگر ان کی جدوجہد تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined