شام میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد جشن کا منظر / Getty Images
شام کا مستقبل اس وقت مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جب سے مزاحمتی گروہوں نے بشارالاسد حکومت کا تختہ پلٹا اور ملک کو اپنے کنٹرول میں لیا، اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شامی حکومت کے بڑے پیمانے پر خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی نمائندگی اس کی افواج کرتی ہے، جسے وہ شامی عرب فوج کہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے مخالف گروہوں کی قیادت حیات تحریر الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ) کر رہی ہے جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔
اس پورے منظر نامے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ دھڑے اسد کی افواج حتیٰ کہ اس کے روسی اتحادی کی طرف سے کسی بھی طرح کی مزاحمت کے بغیر کیسے اتنی تیزی سے آگے بڑھے اور کیسے ایک کے بعد ایک شہر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ شام میں جس منظر نامے کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا تعلق حکومت مخالف دھڑوں کی طاقت یا اسدی قوتوں کی کمزوری سے نہیں ہے، بلکہ ترکی اور روس کے درمیان امریکی اسرائیلی چھتری کے تحت ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرق وسطیٰ کا بحران تاریخ کا ایک پیچیدہ، کثیر الجہتی اور طویل ترین تنازع ہے۔ چین، امریکہ، روس، ترکی اور اسرائیل کی دلچسپیاں کئی جہتوں پر محیط ہیں، جن میں توانائی، جغرافیائی سیاست شامل ہیں۔ یہ علاقہ عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے ہمیشہ ایک مرکزی میدان رہا ہے۔ اس تنازع میں اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ سب سے اہم اور تنازعات کی جڑ قرار دیا جائے تومیں سمجھتا ہوں کہ غلط نہیں ہوگا۔
شام میں اسد حکومت کے ردعمل سے ماہرین حیران ہیں کہ کیسے اسد حکومت نے بغیر کسی مزاحمت کے شام کو حکومت مخالف دھڑوں کے حوالے کر دیا۔ یہاں تک کہ روس نے اسد کی مدد کی اپیل پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہی روس ہے جو یوکرین میں امریکہ سمیت مغربی دنیا کے 32 ممالک کی دھمکیوں کے باوجود شام میں اسد کی مدد جاری رکھے ہوئے تھا اور پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ 50 برس سے زائد عرصے سے قائم دوستانہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے؟
Published: undefined
شام کی صورتحال نے مشرق وسطیٰ میں موجودہ سیاسی طاقت کے توازن کو ایک بار پھر متزلزل کر دیا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت ایران اور روس کے قریبی تعلقات پر انحصار کرتی تھی، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان حالات میں نئے اتحاد اور بلاکس کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں۔ روس اور ایران کے لیے شام ایک اہم اسٹریٹجک مقام تھا اور اب ان ممالک کو خطے میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
دوسری طرف امریکہ اور یورپی ممالک بظاہر شام میں جمہوری حکومت کے قیام کے حامی ہیں لیکن ان کے مفادات بھی ہمیشہ سے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد روس اور ایران کو اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ دونوں ممالک نے شام میں اپنی موجودگی کو اسٹریٹجک اہمیت دی تھی، خاص طور پر روس کے لیے شام بحیرہ روم تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ ایران کے لیے شام ایک اہم اتحادی اور اس کی علاقائی سیاست کا محور تھا۔
Published: undefined
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کی نئی انتظامیہ ان دونوں ممالک کے ساتھ کیا رویہ اپنائے گی؟ اگر نئی انتظامیہ روس اور ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں شام کی خود مختاری اور غیر جانبداری کو قائم رکھنا ایک مشکل ہدف ہوگا۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو امریکہ اور یورپی ممالک اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کریں گے، لیکن اصل چیلنج یہ ہوگا کہ نئی انتظامیہ کو استحکام دینے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کردار اکثر تنازعات کو ہوا دینے والا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کی مثالیں دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ برقرار ہے کہ شام میں بھی امریکہ اپنے مفادات کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ اس بار دیکھنا ہوگا کہ عالمی طاقتیں شامی عوام کے مفادات کو کس حد تک ترجیح دیتی ہیں۔ شام کی داخلی سیاست کے علاوہ اس تبدیلی کے علاقائی اثرات بھی گہرے ہوں گے۔ ترکیہ، جو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف رہا، ممکنہ طور پر عبوری حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔
Published: undefined
اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ان تمام علاقائی کھلاڑیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور شام کی عبوری حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ تمام فریقین کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھ سکے۔ نئی شامی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ شامی عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت کو سخت محنت اور شفاف حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ عوام کے مسائل کے حل کے بغیر کوئی بھی تبدیلی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
شام کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور حکمران آتے اور جاتے رہے ہیں، لیکن عوام کی امنگیں اور مسائل ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ یہ وقت شام کے عوام کے لیے حقیقی تبدیلی کا وعدہ پورا کرنے کا ہے، بصورت دیگر یہ تبدیلی بھی ماضی کی طرح ایک کھوکھلا خواب بن کر رہ جائے گی۔ شام کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ عوامی احتجاج اور عالمی دباو کے نتیجے میں اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ تبدیلی نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو سیاسی، سماجی، اور اقتصادی حوالے سے ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے۔
Published: undefined
شام کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ تبدیلی واقعی شامی عوام کے لیے مثبت ثابت ہوگی؟ یا یہ محض ایک اور اقتدار کی تبدیلی ثابت ہوگی جو عوامی فلاح کے بجائے طاقت کے حصول پر مبنی ہوگی؟ ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے لیکن عوامی توقعات اب نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ شام کی احتجاجی تحریک نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ کوئی بھی انقلاب اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتا جب تک اسے عوامی تائید اور حمایت حاصل نہ ہو۔
اگرچہ اسد حکومت کے خاتمے کوایک تاریخی موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تبدیلی کا اصل مقصد عوامی فلاح ہونا چاہیے۔ عوام کی حمایت کے بغیر کی جانے والی کوئی بھی تبدیلی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ اب یہ ضروری ہے کہ نئی حکومت عوام کی توقعات کو مدنظر رکھے اور ملک میں امن و امان کی بحالی اور ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ نئی حکومت کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ اپنی پالیسیوں میں عوامی فلاح کو اولین ترجیح دے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined