فکر و خیالات

بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مخلص رفیق عبدالقادر باوزیر

عبدالقادر باوزیر ایک عظیم مجاہدِ آزادی تھے جنہوں نے جنوبی افریقہ کی خوشحال زندگی چھوڑ کر مہاتما گاندھی کے ساتھ جدوجہد کی، جیلیں کاٹیں اور سابرمتی آشرم میں سادہ زندگی گزاری

<div class="paragraphs"><p>عبدالقادیر باوزیر / تصویر اے آئی سے بہترشدہ</p></div>

عبدالقادیر باوزیر / تصویر اے آئی سے بہترشدہ

 

عبدالقادر باوزیر کا شمار ہندوستان کے اُن سرفروشانِ آزادی میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے آسائشوں سے بھرپور زندگی کو خیرباد کہہ کر کانٹوں بھری راہوں کا انتخاب کیا۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، مگر اقتدارِ فرنگ سے کسی مفاہمت پر آمادہ نہ ہوئے اور آخری دم تک اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ اس کے باوجود، ایک ایسے انقلابی کو، جس نے قوم و ملک کی خاطر جنوبی افریقہ میں اپنی خوشحال زندگی اور پھلتا پھولتا کاروبار چھوڑ کر مہاتما گاندھی کے آشرم میں درویشانہ طرزِ حیات اختیار کی، تاریخِ ہند میں وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔

Published: undefined

عبدالقادر باوزیر کی پیدائش گجرات کے ایک دولت مند کاروباری خاندان میں ہوئی۔ ان کے آبا و اجداد عرب سے ہندوستان آئے اور کونکن کے علاقے میں آباد ہوئے۔ ان کے والد بمبئی کی تاریخی جامع مسجد کے مؤذن رہے، ایک روز جب وہ وضو کے بعد اذان کی تیاری کے دوران وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عبدالقادر باوزیر کو فطری طور پر علم و زبانوں سے شغف تھا۔ وہ اپنی مادری زبان گجراتی کے علاوہ کونکنی، عربی، اردو، زولو (جنوبی افریقہ کی ایک مقامی زبان)، انگریزی، ڈچ اور کریول فرانسیسی پر عبور رکھتے تھے اور قانونی پیچیدگیوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔

کاروباری ذہانت انہیں ورثے میں ملی تھی۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی وہ عربی گھوڑوں اور بگیوں کی تجارت کے لیے جنوبی افریقہ روانہ ہوئے اور قلیل مدت میں ٹرانسوال کے کامیاب تاجروں میں شمار ہونے لگے۔ وہ جوہانسبرگ کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ اسی نسبت سے مہاتما گاندھی انہیں محبت سے ’امام صاحب‘ کہا کرتے تھے۔

Published: undefined

عبدالقادر باوزیر کا رابطہ 1903ء میں مہاتما گاندھی سے ہوا۔ گاندھی کے نظریۂ عدم تشدد اور مساوات نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں آمنہ اور فاطمہ کے ساتھ تمام آسائشوں کو ترک کر کے فینکس بستی میں رہائش اختیار کر لی۔ نسل پرستی کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور اجلاسوں میں وہ سرگرمی سے شریک رہتے۔ 1907ء میں انہوں نے حمیدیہ اسلامک سوسائٹی کی صدارت سنبھالی اور 1908ء میں پہلی بار قید و بند کی آزمائش سے گزرے۔

جب 1914ء میں مہاتما گاندھی ہندوستان واپس لوٹے تو عبدالقادر باوزیر نے بھی تجارت سے دست بردار ہو کر وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان آ کر وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سابرمتی آشرم میں مقیم ہوئے۔ آشرم کے زیرِ اہتمام قائم پرنٹنگ پریس میں انہوں نے کمپوزیٹر کی حیثیت سے کام کیا، جبکہ ان کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی پریس اور آشرم کی دیگر خدمات میں مصروف رہیں۔ 1920ء کی عدم تعاون تحریک میں وہ پیش پیش رہے اور ایک بار پھر جیل گئے۔

Published: undefined

جب 1924ء میں ان کی بڑی بیٹی آمنہ کی شادی منعقد ہوئی تو گاندھی جی نے سرپرست کی حیثیت سے خود آشرم میں مہمانوں کو مدعو کیا۔ عبدالقادر باوزیر اور ان کی بیٹیوں کو قومی تحریکوں میں سرگرم شرکت کے باعث متعدد بار قید کا سامنا کرنا پڑا۔ 1928ء میں انہوں نے سردار پٹیل کے ساتھ باردولی ستیہ گرہ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کے موقع پر وہ گاندھی جی کے شانہ بشانہ تھے، جس کی پاداش میں گرفتار ہو کر جیل بھیج دیے گئے۔ جیل کی سختیوں نے ان کی صحت کو شدید متاثر کیا۔ بالآخر خراب صحت کے سبب 1931ء میں رہائی ملی، مگر وہ دوبارہ مکمل صحت یاب نہ ہو سکے اور 31 دسمبر 1931ء کو سابرمتی آشرم ہی میں وفات پائی۔

مہاتما گاندھی عبدالقادر باوزیر کو اپنا دوست اور بھائی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ 1914ء میں جب آشرم کے مکینوں کی ہندوستان واپسی کا فیصلہ ہوا تو امام صاحب کشمکش میں مبتلا ہوئے، کیونکہ جنوبی افریقہ ان کا گھر بن چکا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے لمحہ بھر میں فیصلہ کر لیا کہ جہاں وہ رہیں گے، ان کا خاندان بھی وہیں رہے گا۔ گاندھی کے نزدیک یہ فیصلہ ستیہ گرہ کے حصول اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے عبدالقادر باوزیر کی عظیم قربانی تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined