فکر و خیالات

90 گھنٹے کام کرنے کا مشورہ: کارپوریٹ دنیا کی بے حسی کا عکاس

ایل اینڈ ٹی کے چیئرمین ایس این سبرامنین کا 90 گھنٹے کام کرنے کا بیان ملازمین کے حقوق پر سوال اٹھاتا ہے۔ ہندوستانی کارپوریٹ دنیا میں اس طرح کی سوچ مزدوروں کی فلاح و بہبود سے غفلت کو ظاہر کرتی ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

ایل اینڈ ٹی کے 60 سالہ چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر (سی ایم ڈی) ایس این سبرامنین، جنہیں کمپنی میں ’ایس این ایس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ انہیں ان سی ای اوز میں شمار نہیں کیا جاتا جو شہ سرخیوں میں رہتے ہیں یا ایسی زندگی گزارتے ہیں جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں۔ وہ 80 سالہ قابلِ احترام تاریخ رکھنے والے ایک گروپ کے سربراہ ہیں، جس کے 50 سے زائد ممالک میں 50,000 سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں اور 2024 میں جس کا سالانہ کاروبار 2.2 لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ ایسے میں یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ ان جیسے سینئر شخص نے ایسی کوئی بات کہی ہوگی۔

ایک لیک ویڈیو (جس کی تاریخ معلوم نہیں) میں انہوں نے کہا کہ اگر ان کی مرضی چلتی تو وہ ملازمین سے اتوار کو بھی کام کرواتے، کیونکہ اس دن گھر پر بیٹھ کر بیوی کو گھورنے کے علاوہ ان کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان خواتین کے بارے میں سوچیں جو ایل اینڈ ٹی کی کامیابی کے شاندار سفر کا حصہ رہی ہیں تو ایس این ایس کا یہ بیان واقعی افسوسناک ہے۔

Published: undefined

دیپیکا پادوکون نے صحیح کہا کہ اس افسوسناک صورت حال سے نمٹنے کی ان کی کوششوں نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کے نسخے کو قومی تعمیر کے مشن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش نے ان کی سوچ کو عیاں کر دیا۔ کیا وہ واقعی سنجیدہ تھے؟ کیا وہ این آر نارائن مورتی کے 70 گھنٹے کے ورک ویک کے متنازع مطالبے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جس پر انڈین ٹریڈ یونینز کے مرکز نے تنقید کی ہے؟ ایل اینڈ ٹی کے وضاحتی بیان نے یہ امکان بڑھا دیا ہے کہ لوگ اسے ’معصوم مذاق‘ نہیں سمجھیں گے۔ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں گے کہ یہ کوئی ایسی ’میزائل‘ تھی جو ’غلطی سے چل‘ گئی۔

چاہے ہم ایس این ایس کو شک کا فائدہ دے دیں اور یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ اکثر ایسی ’گھماؤ دار‘ باتوں کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کا کوئی برا ارادہ نہیں تھا، پھر بھی ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں کوئی سی ای او اس طرح کے بیان دینے کے بعد جواب دہی سے بچ سکتا ہے؟ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے اس طرح کے معاملات ہندوستانی کارپوریٹ دنیا میں موجود سنگین خرابیوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔

Published: undefined

کیا ایس این ایس کا وژن وہی ہے جس کا ذکر وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی یومِ نوجوان (12 جنوری) پر ’ترقی یافتہ ہندوستان نوجوان لیڈر مکالمہ 2025‘ میں کیا تھا، ’ہندوستان کی نوجوان طاقت ملک کو ایک ترقی یافتہ قوم بنائے گی۔‘

آج کے سی ای اوز یقیناً چاہتے ہیں کہ سیاست دان ان کے بارے میں یہ سوچیں کہ وہ بھی ان ہی کے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، مگر آج کا نوجوان طبقہ نارائن مورتی اور ایس این ایس جیسے لوگوں کے بارے میں اپنے ناگواری کے جذبات چھپانے سے نہیں ہچکچاتا۔ ملازمین میں بڑھتی ہوئی اس ناراضگی کو کون سمجھ پائے گا؟ کون ان کی آواز سنے گا اور اتنی سنجیدگی سے لے گا کہ ہندوستان میں کام اور زندگی کے توازن (یا اس کی کمی) میں کوئی بہتری لائی جا سکے؟

یہ مسئلہ صرف ایس این ایس تک محدود نہیں، بلکہ تمام کارپوریٹ سربراہان کو جواب دہ ہونا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر مضبوط ریگولیٹری اقدامات کے ذریعے ان پر قابو پایا جانا چاہیے۔

Published: undefined

غور کریں کہ ایس این ایس کو مالی سال 2023-24 کے لیے کل 51.05 کروڑ روپے کا معاوضہ دیا گیا، جو ایل اینڈ ٹی کے اوسط معاوضے سے 534.57 گنا زیادہ ہے۔ یہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 43.11 فیصد زیادہ ہے۔ کمپنی میں ان کا تنخواہ پیکیج سب سے زیادہ تھا، جو دوسرے سب سے زیادہ معاوضہ پانے والے صدر اور سی ایف او آر شنکر رمن سے تقریباً 40 فیصد زیادہ تھا۔ ایسے میں ایل اینڈ ٹی کے وہ ملازمین، جنہیں اس کے مقابلے میں بہت کم تنخواہ ملتی ہے، اپنے سربراہ کی اس طرح کی باتوں پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے؟

اس تناظر میں، 'ترقی یافتہ ہندوستان' کے ایجنڈے پر پہلا اہم نکتہ سی ایکس او (چیف ایکسپیرینس آفیسر، جیسا کہ اب انہیں کہا جاتا ہے) کی اپنی تنخواہوں کی حد مقرر کرنا ہونا چاہیے۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا فیصلہ نہیں کرتے، بلکہ بورڈ کرتا ہے۔ یہ محض ایک رسمی بات ہے! ہندوستان کے تناظر میں یہ حفاظتی نظام مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ کمپنی بورڈز اکثر ایک جیسے خیالات رکھنے والے افراد کے گروہ کی طرح کام کرتے ہیں، جو اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہر ممکن لچک دکھاتے ہیں۔

Published: undefined

ڈیلائٹ کی رپورٹ کے مطابق ایل اینڈ ٹی کے بانیوں – آنجہانی ہیننگ ہولک-لارسن اور سورین ٹوبرو – کے وطن ڈنمارک میں، جو واقعی ایک ترقی یافتہ ملک ہے، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی اوسط ’ویری ایبل تنخواہ‘ 37 فیصد ہوتی ہے۔ جبکہ ہندوستان میں ایل اینڈ ٹی کے سی ایم ڈی سبرامنین کے معاملے میں یہ تناسب 980 فیصد ہے (3.6 کروڑ روپے تنخواہ، 35.28 کروڑ روپے کمیشن، جیسا کہ ایل اینڈ ٹی نے 2024 کی رپورٹ میں بیان کیا ہے)۔ کمیشن کمپنی کی کارکردگی پر مبنی ہوتا ہے، تو کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کا کریڈٹ صرف ایس این ایس کو جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ان کی حالیہ متنازعہ بیان بازی کے بعد جو ہنر مند نوجوان کمپنی چھوڑیں گے، اس نقصان کا حساب ایل اینڈ ٹی کیسے کرے گی؟

اگلا اہم سوال جو ابھرتا ہے، وہ ہے ہندوستانی کارپوریٹس میں اختلاف رائے کا مکمل فقدان۔ استحکام کی زبان، جدت کی اپیل اور تنوع، مساوات اور شمولیت کی پالیسیوں کے دعوے اس وقت کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہندوستانی اداروں میں – چاہے وہ کتنے ہی بڑے اور عظیم سمجھے جاتے ہوں – کوئی بھی باس کو چیلنج نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے، سوال اس لیے نہیں کیے جاتے کیونکہ سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس سے ایسی ثقافت پروان چڑھتی ہے جہاں عہدیداری کا غلبہ ہوتا ہے، باس ہمیشہ درست ہوتا ہے اور تخلیقی سوچ پنپ نہیں پاتی۔ (منصفانہ طور پر دیکھا جائے تو مثبت اختلاف رائے پر مبنی اطاعت کی یہ خوف زدہ ثقافت اسکول ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔) ایل اینڈ ٹی کے اندرونی زوال کی ایک جھلک یہ ہے کہ کسی نے بھی ویڈیو میں ایس این ایس کو چیلنج نہیں کیا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ویڈیو لیک ہو گیا؛ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے ایس این ایس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ایسا بیان دینے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ اکثر ہمارے سی ای اوز کرتے ہیں، ایسے وقتوں میں وہ بچ نکلتے ہیں۔ شور صرف کارپوریٹ دنیا کے باہر ہوتا ہے۔

Published: undefined

ہندوستان کو نئی نسل کے ذہین لیڈروں کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرانی سوچ رکھنے والوں کو زیادہ سوالات اور کم فیصلوں کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ انہیں خود احتسابی اور اس بات کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اتنے غیر معمولی نہیں ہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ چونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مستقبل قریب میں یہ تبدیلی آئے گی، اس لیے ہندوستانی کارپوریٹس کو اپنے معاملات درست کرنے کے لیے نئے اصول بنانے ہوں گے۔

(مضمون نگار لیکھا رتنانی دی بلین پریس کی منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ بشکریہ: دی بلین پریس)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined