دیہی علاقے میں گھر گھر جاکر فارم تقسیم کیے جانے کے دوران فارم دکھاتے گاؤں کے لوگ / Getty Images
بہار کے عوام یکم اگست کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار اور انتخابی ماہرین بھی اس دن پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ اسی روز انتخابی کمیشن ترمیم شدہ ووٹر لسٹ جاری کرے گا۔ ’خصوصی گہری نظرثانی‘ (ایس آئی آر) کے نام پر شروع کیے گئے اس عمل نے بہار کی سیاست میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ اپوزیشن تو پہلے سے اس پر تنقید کر رہی تھی، اب بی جے پی کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس پر سوال اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔
بانکا سے جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ایم پی، گِرِدھاری یادو، جنہیں پارٹی ڈسپلن توڑنے پر نوٹس جاری کیا جا چکا ہے، نے برملا کہا، ’’انتخابی کمیشن کو بہار کی سمجھ ہی نہیں۔ مانسون کے دوران لوگ کھیتی باڑی میں مصروف ہوتے ہیں اور اسی وقت یہ عمل مسلط کر دیا گیا۔ میرا بیٹا امریکہ میں ہے، مجھے اپنے کاغذات درست کرانے میں دس دن لگ گئے۔ کمیشن کو کم از کم چھ ماہ کا وقت دینا چاہیے تھا۔‘‘
Published: undefined
متعدد جے ڈی یو رہنماؤں نے بھی غیر رسمی بات چیت میں اس عمل کے وقت، طریقہ کار اور ممکنہ نتائج پر تشویش ظاہر کی۔ خاص طور پر انہوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اس موسم میں اصل دستاویزات جمع کرنا مشکل ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں حقیقی ووٹرز، خاص طور پر مہاجر مزدور، حتمی فہرست سے باہر رہ جائیں۔ انتخابی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جے ڈی یو کے لیے بہار ایک اہم ریاست ہے اور پارٹی اس دباؤ کو محسوس کر رہی ہے۔ پارٹی کی نچلی سطح سے اعلیٰ قیادت تک ناراضگی پھیل رہی ہے۔
الیکشن کمیشن نے 21 جولائی کو دعویٰ کیا کہ اس کے اہلکار 43.9 لاکھ ووٹرز کو ان کے درج پتے پر نہیں تلاش سکے۔ صرف تین دنوں بعد، یہ تعداد 7 لاکھ کے اضافے کے ساتھ 52.3 لاکھ ہو گئی۔ یہ اضافہ کمیشن کے اپنے دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔ کمیشن نے کہا کہ ان میں سے بیشتر ووٹرز یا تو فوت ہو چکے ہیں، یا نقل مکانی کر چکے ہیں، یا ایک سے زائد جگہوں پر درج ہیں۔ مزید 21.4 لاکھ افراد نے مطلوبہ دستاویزات جمع نہیں کرائے۔
Published: undefined
کمیشن نے دعویٰ کیا کہ ان 74 لاکھ ووٹرز کی فہرست تمام سیاسی جماعتوں سے شیئر کی گئی ہے اور ان سے مدد بھی مانگی گئی ہے لیکن راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس کے رہنماؤں نے بتایا کہ انہیں ایسی کوئی فہرست نہیں دی گئی۔ ایک رہنما نے کہا کہ اگر فہرست 23 جولائی کو دی بھی جاتی، تو 25 جولائی کی آخری تاریخ سے پہلے اس کی جانچ ممکن نہیں تھی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی این ڈی اے اتحادی، تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی)، جس کا بہار سے کوئی براہ راست مفاد نہیں، نے بھی اس عمل پر اعتراض کیا ہے۔ 15 جولائی کو، ٹی ڈی پی کے رکن پارلیمان لوو سری کرشنا دیورایلو نے کمیشن میں کہا کہ ووٹر تصدیق کا عمل بوجھ بننے کے بجائے تکنیکی اصلاح پر مبنی ہونا چاہیے اور اس سے واضح طور پر الگ ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس عمل کو شہریت کی جانچ سے جوڑنے کی کوئی گنجائش نہ ہو، تاکہ کسی بھی قسم کے غلط فہمی یا بدنیتی پر مبنی استعمال سے بچا جا سکے۔ ٹی ڈی پی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر یہ بھی کہا کہ ایس آئی آر کی حدود کو واضح کیا جائے اور اس بات پر زور دیا کہ یہ خالصتاً ایک تکنیکی اصلاح ہے، نہ کہ شہریت کے تعین کا ذریعہ۔
Published: undefined
اس عمل کے خلاف 10 جولائی کو دائر کی گئی عرضیوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بنچ، جس میں جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوئے مالیا باگچی شامل تھے، نے آئندہ سماعت کی تاریخ 28 جولائی رکھی، جسے بعد میں 29 جولائی کر دیا گیا۔ یہ رپورٹ لکھے جانے تک یہ واضح نہیں تھا کہ اگر سپریم کورٹ سے کوئی فوری ریلیف نہ ملا تو اپوزیشن کیا حکمت عملی اپنائے گی۔ چونکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات اکتوبر/نومبر میں ہونے ہیں اور انتخابی شیڈول ستمبر میں جاری ہونے کا امکان ہے، اس لیے متاثرہ ووٹرز کے پاس ووٹ کا حق حاصل کرنے کا وقت بہت کم رہ جائے گا۔ الیکشن کی نوٹیفکیشن کے بعد عدالتی مداخلت کی گنجائش تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
آر جے ڈی کے ایک سینئر رہنما نے تسلیم کیا، ’’ابھی تک ہمارے پاس اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔‘‘ کانگریس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس پر ابھی تک اتحادی جماعتوں کے درمیان کوئی باضابطہ گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ کئی لیڈروں کا کہنا تھا کہ وہ دہلی میں مرکزی قیادت کی ہدایت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک رہنما کے بقول، ’’یہ معاملہ قانونی پیچیدگیوں سے جڑا ہوا ہے اور اس پر کوئی بھی مؤثر حکمت عملی سپریم کورٹ میں ’انڈیا بلاک‘ کے وکلا اور سینئر قانونی ماہرین سے مشورے کے بعد ہی طے کی جا سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
ایس آئی آر پر گہری نظر رکھنے والے سرگرم کارکن اور انتخابی ماہر یوگندر یادو نے بھی الیکشن کمیشن کے دعووں پر سخت شبہ ظاہر کیا۔ یادو حال ہی میں پٹنہ میں ایک عوامی سماعت میں شریک ہوئے، جہاں ریاست کے مختلف علاقوں سے آئے لوگوں نے اپنی شکایات سنائیں۔ دہلی واپسی پر یادو نے بتایا، ’’سرکاری دعوے زمینی حقیقت کو نہیں دکھاتے، کوئی نہیں جانتا کہ ایس آئی آر فارم کیسے بھرے گئے؛ عوام اب بھی اس عمل سے ناواقف ہیں۔ بہار میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دہلی سے جاری ’آمرانہ فرمان‘ کے تحت انتخابی دھوکہ دہی ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا، ’’اصل کھیل تو یکم اگست کے بعد شروع ہوگا۔ خطرہ محض (اتفاقیہ) نام ہٹنے کا نہیں، بلکہ ووٹنگ کے حق سے شعوری اور منظم طریقے سے محروم کیے جانے کا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined