کیا مغرب کی خاموشی نے نیتن یاہو کو غزہ میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے؟

غزہ میں 60 ہزار سے زائد ہلاکتوں اور انسانی تباہی کے باوجود جنگ جاری ہے کیونکہ نیتن یاہو اسے اپنی سیاسی بقا کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، جبکہ مغرب کی مذمتی بیان بازی عملی اقدام سے خالی ہے

<div class="paragraphs"><p>غزہ کی تباہی کا منظر / فائل تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

غزہ کی تباہی کا منظر / فائل تصویر / آئی اے این ایس

user

اشوک سوین

غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو 650 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ تباہی کی شدت اس قدر ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ 60 ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ 20 لاکھ سے زائد افراد قحط اور بیماریوں میں گھرے ہوئے ہیں، جسے اقوام متحدہ انسانی ہاتھوں سے پیدا کردہ بحران قرار دیتا ہے۔ غزہ شہر مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس بھی اب اسرائیلی مہم کو ’ظالمانہ‘ قرار دے رہا ہے۔ 21 جولائی کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو چھوڑ کر مغربی یورپ کے بیشتر ممالک، کینیڈا اور جاپان سمیت 25 ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ غزہ میں جنگ ’فوری طور پر رکنی چاہیے‘۔ انہوں نے اسرائیلی ناکہ بندی اور پانی خوراک حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی اور نیتن یاہو حکومت کے رویے کو ’غیر انسانی‘ اور ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

پھر بھی جنگ جاری ہے۔ اسرائیل کے شدت پسند دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزیل سموٹریچ غزہ کو اسرائیل کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دے رہے ہیں اور شمالی غزہ کے مکمل الحاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب نہ تو عسکری حکمتِ عملی میں ہے، نہ قومی سلامتی کے اصولوں میں، بلکہ ایک شخص- بنجامن نیتن یاہو کی ذاتی سیاسی بقا سے جڑا ہے۔

اسرائیل کی عالمی سطح پر بڑھتی تنہائی اور مغربی راجدھانیوں میں عوامی غصے کے باوجود نیتن یاہو جنگ کو بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حماس تقریباً ختم ہو چکی ہے مگر اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی رہا نہیں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی کی آخری امید بن چکی ہے۔ ان پر مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں، عوامی حمایت میں کمی آ چکی ہے اور ان کی کابینہ اور فوج کے اندر بھی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو جنگ کو اپنے لیے ایک سیاسی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا اندازہ بھی درست نکلا ہے کہ مغرب خواہ جتنی مذمت کرے، وہ اس جنگ کے لیے درکار حمایت بند نہیں کرے گا۔


طویل عرصے سے مغربی ممالک اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں ہولوکاسٹ کا جرم، جغرافیائی مفادات، یا اسرائیل نواز طاقتور لابیاں شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نے یا تو اسرائیل کی کھل کر حمایت کی یا پھر خاموشی اختیار کی۔ مگر غزہ میں جس سطح پر تباہی پھیلائی جا رہی ہے، جہاں بچوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو قتل کیا جا رہا ہے، امدادی مراکز پر حملے ہو رہے ہیں اور نسل کشی کا ارتکاب ہو رہا ہے، اس سے ان خاموش حکومتوں کی شراکت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

مہینوں تک اسلحہ فراہم کرنے اور جنگ بندی کی قراردادوں کو روکنے کے بعد اب امریکہ بھی اسرائیل کے اقدامات کو ’ناقابل معافی‘ قرار دینے لگا ہے۔ اسرائیل کا طویل عرصے تک حامی رہا جرمنی بھی اب یہ کہنے لگا ہے کہ اس کی حمایت بغیر شرط کے نہیں ہے۔ اندرون ملک عوامی دباؤ کے باعث برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل سے جنگ روکنے اور انسانی امداد کی اجازت دینے کی اپیل کی ہے۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر بھی اب اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہیں۔

مگر ان تمام مذمتی بیانات کا نیتن یاہو پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ صرف الفاظ ہیں، عملی اقدامات ان کے پیچھے نہیں ہیں۔ اسرائیل کی جنگی مشین بڑی حد تک مغربی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ امریکی ہتھیار، یورپی تجارت اور اقوام متحدہ میں سفارتی تحفظ اسرائیل کی کارروائیوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔ تنقید کے باوجود یہ حمایت جاری ہے۔ مغربی ممالک سے اسرائیل کو ہتھیار ملتے رہتے ہیں، جن سے غزہ میں تباہی مچائی جا رہی ہے۔ نہ تو یورپی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارت روکی ہے اور نہ کوئی بامعنی پابندیاں لگائی ہیں۔

بیانات اور اقدامات کے درمیان یہی فرق نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ وہ مغرب پر انحصار کرتے ہوئے بھی اس کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں ہے؛ نیتن یاہو طویل عرصے سے مغربی ملکوں کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ان ممالک کے خطے میں مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایران کا خطرہ، علاقائی عدم استحکام اور اسرائیل کی داخلی کمزوری مغربی رہنماؤں کو چپ رہنے پر مجبور رکھتی ہے۔


نیتن یاہو بخوبی سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ اسرائیل کو ایک ’خطرے میں گھرا جمہوری ملک‘ ظاہر کرتے رہیں گے، مغرب سے امداد ملتی رہے گی، چاہے نیم دلانہ ہی کیوں نہ ہو۔

جنگ کے جاری رہنے کی ایک اور وجہ نیتن یاہو کی ذاتی سیاسی مجبوری ہے۔ اسرائیل کے اندر وہ انتہائی غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ معاشرہ منقسم ہے، وسیع پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور لوگ فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ فوج میں بھی ان کی یرغمالی پالیسی پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ یرغمالیوں کے رشتہ دار ان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے عام لوگوں کی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔ ان کا انتہائی دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں والا کمزور اتحاد بھی بکھر رہا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات الگ چل رہے ہیں اور اگر وہ اقتدار سے گئے تو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔

لہٰذا نیتن یاہو کے لیے جنگ محض ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ ان کے وجود کی بقا کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ جب تک جنگ جاری ہے، وہ انتخابات کو مؤخر کر سکتے ہیں، قانونی معاملات سے عوام کی توجہ ہٹا سکتے ہیں اور قومی سلامتی کے نام پر مخالفت کو کچل سکتے ہیں۔ وہ جنگ بندی سے انکار کر کے، فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کر کے اور بستیوں کی توسیع سے اپنے دائیں بازو کے حامیوں کو خوش رکھ سکتے ہیں۔ وہ مخالفین کو کبھی ملک دشمن، کبھی کمزور قرار دے کر خود کو اسرائیل کا واحد محافظ پیش کر سکتے ہیں۔

نیتن یاہو کی جنگ مغرب کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ ان ممالک سے اس لیے بھی نہیں ڈرتے کیونکہ یہی ممالک انہیں ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور اقوام متحدہ میں ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یورپ اسرائیل کا اہم تجارتی ساتھی ہے۔ مغربی ممالک اگر سنجیدہ ہوں تو وہ متحد ہو کر اسرائیل پر جنگ روکنے اور غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں اور ایک سیاسی امن منصوبہ تیار کر سکتے ہیں۔


مگر افسوس کہ انہوں نے اپنا اثر استعمال نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف انتباہات دیے، تشویش ظاہر کی، مگر کوئی عملی شرط عائد نہیں کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف لائی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا اور اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا۔ پالیسی اور عمل کے اس تضاد نے نیتن یاہو کو بے لگام کر دیا ہے۔

محض اپیلیں نیتن یاہو کو نہیں روک سکتیں۔ اگر مغرب واقعی یہ جنگ بند کروانا چاہتا ہے تو اسے وہ زبان اختیار کرنی ہوگی جو نیتن یاہو سمجھتے ہیں- مشروط امداد، اسلحہ پر پابندیاں، سفارتی تنہائی اور ایسے نتائج جن کا حقیقی اثر ہو۔ نیتن یاہو نے مغرب کی ہچکچاہٹ کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر واشنگٹن، برلن، لندن اور پیرس کے رہنما واقعی چاہتے ہیں کہ یہ قتلِ عام رکے، تو انہیں اسرائیل کی حمایت بند کرنا ہوگی۔

(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اُپسلا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کے ریسرچ پروفیسر ہیں)