تاولی کی زینت نے گاؤں کو کبڈی سے گلزار کر دیا !

زینت کہتی ہیں ’’ میں نے کبڈی کھیلنا شروع کیا تو کہا گیا یہ غلط ہو رہا ہے اور جب میں نے دوسری لڑکیوں کو کوچنگ دینی شروع کی تو کہا گیا یہ تو اور بھی غلط ہو رہاہے۔ ‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

بزرگ رشید احمد کہتے ہیں ’’تاولی گاؤں کے پرائمری اسکول میں بطور ٹیچر پڑھانے والی زینت چودھری کوئی عام لڑکی نہیں ہےبلکہ گاؤں کے لئے ایک نعمت کی طرح ہے۔ ‘‘ اس بات کو سننے والے ہر شخص کے ذہن میں زینت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔

مظفر نگر :زینت (34) تاولی کے ایک مسلم جاٹ خاندان میں پیدا ہوئی اور شہر جاکر تعلیم حاصل کرنے والی وہ گاؤں کی پہلی بیٹی بنیں۔ آج وہ گاؤں کی لڑکیوں کو کبڈی کی تربیت دیتی ہیں اور ان کی تربیت کےنتیجہ میں وہاں کی 17 لڑکیاں قومی سطح کے کبڈی مقابلوں میں اپنے جوہر دکھا چکی ہیں۔ کھیل کے ہی دم پر یہاں کی 4 لڑکیاں اسپورٹس کوٹے سے سرکاری نوکری بھی کر رہی ہیں۔ زینت نے بچیوں میں ایسا جنون بھر دیا ہےکہ آج گاؤں کے تقریباً ہر گھر کی ایک بیٹی کبڈی ضرور کھیلتی ہے۔

سب جونئیر کھلاڑی سہانا سے جب یہ پوچھا گیا کہ لوگوں کے کہنے کا کوئی اثر تو نہیں ہوتا اس پر وہ تپاک سے ٹھیٹ دیسی انداز میں جواب دیتی ہیں ’’ اجی اب کسی کے کچھ کہنے سے ہم کھیلنا تھوڑے چھوڑ دیں، دنگل دیکھی ہے میں نے۔ ‘‘
تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
ریٹا کے ساتھ زینت

تاولی مظفرنگر سے بڑھانا جانے والے روڈ پر شاہ پور سے 5 کلومیٹر پہلے واقع ہے اور یہ وہی گاؤں ہے جہاں مظفرنگر فساد کے بعد یو پی اے کی چیر پرسن سونیا گاندھی، سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کے ہمراہ متاثرین کی خبر گیری کے لئے پہنچی تھیں۔ فساد متاثرین کا ایک کیمپ یہاں آج بھی موجود ہے۔ یہ گاؤں مسلم جاٹ اکثریتی گاؤں ہے جنہیں مقامی بولی میں ’مولے جاٹ ‘بھی کہا جاتا ہے ۔ سڑک کے کنارے پر بسے اس گاؤں کی آبادی 2 ہزار سے زیادہ ہے۔

اب تاولی گاؤں میں ہر طرف سب سے زیادہ اگر کسی چیز کا ذکر ہوتا ہے تو وہ کبڈی ہی ہے اور اس کی وجہ ہے سابق کبڈی کی قومی کھلاڑی زینت چودھری جو تاولی میں پیدا ہوئیں اور ملحقہ گاؤں شورم میں بیاہی ۔ ان کے والد گاؤں کے بڑے زمیندار ہیں اور پورا گاؤں انہیں تاولی کی بیٹی کہتا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
نرگس اور شومین کے ساتھ زینت

ان کے کبڈی کھیلنے کی شروعات اور تجربہ کے بارے میں پوچھے جانے پر زینت کہتی ہیں ’’ ہمارا گاؤں کافی پسماندہ ہے اور میں نے اپنے کھیل کی شروعات کے دوران کافی تنقید جھیلی ہے ۔ قومی سطح پر جب میں نے کھیلنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں وہ نہیں کر پائی جو مجھے کرنا چاہئے تھا ۔ اس لئے میں نے گاؤں کی دوسری لڑکیوں کو کبڈی کی تربیت دینے کا بیڑہ اٹھا یا اور مجھے اس کے لئے مخالفت بھی جھیلنی پڑی۔ ‘‘ زینت کہتی ہیں ’’ گاؤں سے شہر جاکر پڑھنے والی میں گاؤں کی پہلی لڑکی تھی اور مجھے یاد ہے کہ میرے شہر جاکر پڑھنے پر بھی کئی لوگوں کو اعتراض ہوا تھا لیکن میرے خاندان نے میری پوری حمایت کی۔ ‘‘

زینت کہتی ہیں ’’ میں نے کبڈی کھیلنا شروع کیا تو کہا گیا یہ غلط ہو رہا ہے اور جب میں نے دوسری لڑکیوں کو کوچنگ دینی شروع کی تو کہا گیا یہ تو اور بھی غلط ہو رہاہے۔ ‘‘

زینت نے مزید کہا ’’ آج خدا کا شکر ہے کہ گاؤں کی 15 سے20 لڑکیاں قومی سطح پر کھیل رہی ہیں اور 4 لڑکیاں اس کھیل کی وجہ سے سرکاری نوکری بھی حاصل کر چکی ہیں اور اب لوگ تعریف بھی کرتے ہیں ۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
نرگس، شومین اور سہانا

زینت پہلے گاؤں میں ہی لڑکیوں کو کبڈی کی کوچنگ دیتی تھیں اب انہوں نے شاہپور میں اکیڈمی کھول لی ہے جس کے ذریعہ وہ اعلیٰ سطح کی تربیت دے رہی ہیں۔

بھینس کا گوبر صاف کر رہی ایک اور کھلاڑی شومین (13) سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ صرف کبڈی ہی کیوں کھیلتی ہیں تو وہ کہتی ہیں ’’ اس کھیل میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔ میں ثانیہ مرزا کی طرح امیر نہیں ہوں ورنہ میرا دل بھی ثانیہ بننے کا کرتا ہے۔‘‘

نرگِس (19) نے شومین اور سہانا کے ساتھ مل کر کبڈی کے کچھ داؤ پینچ کا مظاہرہ کیا ۔ سہانا کی تیزی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ زینت سہانا کے لئے کہتی ہیں’’یہ بھی پرتبھا کی طرح بہترین ’ریڈر‘ بنے گی۔‘‘ کبڈی میں حریف کے پالے میں جاکر چیلنج کرنے والے کو ریڈر کہا جاتا ہے ۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
پرتبھا کماری کو ملا انعام دکھاتیں ان کی والدہ

تاولی کی قومی سطح پر کھیل رہی کھلاڑی پرتبھا کماری زینت کی شاگرد ہیں اور بہترین ریڈر ہیں ۔ پرتبھا اب ریلوے کی طرف سے کھیلتی ہیں اور وہیں ملازمت بھی کرتی ہیں۔ رقیہ اور روبینہ بھی کبڈی کے دم پر سرکاری نوکری میں چلی گئی ہیں۔

رقیہ اس وقت پٹنہ میں تعینات ہیں ، ملازمت کی وجہ سے کھیلنا بند تو نہیں ہو جائے گا اس پر وہ کہتی ہیں ’’ مہندر سنگھ دھونی بھی پہلے دھنباد میں ٹی ٹی تھے وہ رکے کیا! تو پھر ہم بھی نہیں رکیں گے۔ ‘‘

لیکن زینت کہتی ہیں کہ کئی لڑکیاں رک گئی ہیں۔ جیسے نرگِس کی بہت جلد شادی ہو گئی اور وہ ماں بن گئیں۔

دراصل گاؤں کے زیادہ تر خاندان اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں اور غریبوں کو طنز بھی کچھ زیادہ ہی جھیلنے پڑتے ہیں۔ پرتبھا کی ماں ریشو دیوی پرتبھا کو ملے انعامات کو فخر کے ساتھ دکھاتی ہیں۔ زینت، ریشو دیوی سے کہتی ہیں ’’ اب ریٹا کو بھی مجھے دے دو میں اسے بھی اسی طرح لے جاؤں گی جیسے پرتبھا کو لے گئی تھی۔‘‘ ریشو دیوی کہتی ہیں ’’ تو جو چاہے کر لے۔‘‘ ریٹا، پرتبھا کی چھوٹی بہن ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

یہ تمام لڑکیاں پہلے شلوار سوٹ میں کھیلتی تھیں لیکن اب انہوں نے یونیفارم میں کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ زیادہ تر لڑکیوں کے بال کٹے ہوئے ہیں۔ ایک اور بہترین کھلاڑی مونا کہتی ہیں ’’ لمبی چوٹی ایک دم پکڑ میں آ جاتی ہے اس لئے بال کٹوانے پڑتے ہیں۔‘‘

روبی کماری کی ماں سنجوکر رکھی گئیں اخبارات کی کترنیں دکھاتی ہیں اور روبی کہتی ہیں ’’ میڈم (زینت) نے ہماری تقدیر بدل دی‘‘ ۔ مظفر نگر سے تاولی کا پتہ پوچھنے پر ایک راہگیر کی بات یاد آتی جب اس نے کہا تھا ’’ جہاں لڑکیاں کبڈی کھیلتی ہیں۔‘‘ یہ بات سن کر زینت صرف مسکرا دیتی ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Jan 2018, 7:53 AM