حکومت کو رافیل پر کئی سوالوں کے جواب دینا ضروری

حکومت کے پاس آج تک طیاروں کی تعداد کم کرنے اور ایچ اے ایل کی جگہ انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کو شامل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ اب اس تعلق سے روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

قومی آواز تجزیہ

رافیل معاہدے کو لے کر پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہے۔ اس ہنگامہ کے درمیان جہاں حزب اختلاف اس سودے کے تعلق سے کئی سوال پوچھ رہا ہے وہیں حکومت اس پورے معاملہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے یا پھر اس سودے کو ٹھیک ٹھہرانے میں تمام صلاحیتیں صرف کر رہی ہے ۔ دراصل رافیل دو انجن والا جنگی طیارہ ہے جس کو فرانس کی دسالٹ ایویشن کمپنی نے ڈیزائن اور تیار کیا ہے، اور رافیل کا شمار سب سے اچھے جنگی طیاروں میں ہوتا ہے۔

منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے سال 2007 میں کثیر مقصدی 126 جنگی طیارہ خریدنے کا عمل شروع کیا جن کو ایم ایم آر سی اے (Medium Multi Role Combat aircraft) کہا جاتا ہے۔ یہ پیش کش انڈین ایئر فورس کی تھی اور اس کومنظوری اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انٹونی نے دی تھی ۔ اس میں کئی کمپنیوں نے شرکت کی تھی جن میں لاک ہیڈ مارٹن ایف- 16، یورو فائٹر ٹائیفون ۔ روس کا ایم آئی جی 35، سویڈن اگریپن بوئنگ ایف اے 18 اور دسالٹ ایویشن کے رافیل تھے۔

ایک طویل عمل کے بعد یہ ٹنڈر سال 2012 میں کھولے گئے جس میں دسالٹ ایویشن کا نام سب سے کم بولی لگانے والی کمپنی کے طور پر سامنے آیا ۔ ابتداء میں یہ طے ہوا کہ 18 طیارہ فرانس میں تیار ہوں گے جبکہ 108 ہندوستان میں ایچ اے ایل یعنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کے ساتھ مل کر تیار کئے جائیں گے ۔

کئی اہم امور جن میں قیمت اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ بھی شامل تھا، اس کے تعلق سے یو پی اے حکومت اور دسالٹ ایویشن کے درمیان لمبی بات چیت ہوئی اور آخری بات چیت سال 2014 کے ابتداء تک چلتی رہی لیکن فائنل نہیں ہوئی۔ اور اس کے بعد مرکز میں یو پی اے کی جگہ این ڈی اے کی حکومت اقتدار میں آ گئی ۔ منموہن سنگھ کی جگہ نریندر مودی وزیر اعظم بن گئے ۔ جو پارٹی اس معاہدے پر سوال اٹھا رہی تھی وہی پارٹی اقتدار میں آ گئی۔

رافیل جنگی طیارہ کی جن مجوزہ قیمتوں پر بات ہو رہی تھی لیکن ان کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ، وہ یو پی اے حکومت کے دور میں 526 کروڑ روپے طے کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اب جو رافیل جنگی طیارہ خریدے جا رہے ہیں ان کی قیمت 1670 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے ۔( اس میں روپے کی قیمت کے حساب سے تبدیلی آ سکتی ہے)

اس معاہدے میں صرف قیمت کی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جو طیارے لئے جانے ہیں ان کی تعداد کو لے کر بھی تبدیلی آئی ۔ یو پی اے کے زمانہ میں یہ طے ہوا تھا کہ 126 رافیل طیارے خریدے جائیں گے جبکہ اب صرف 36 طیارے لئے جانے کی بات ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی 10 اپریل 2015کو فرانس کے دورے پر گئے تھے اور صدر اولاند سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

یو پی اے کے زمانہ اور خود مودی حکومت کے دور میں ایک وقت تک یہ طے تھا کہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ فرانس کی دسالٹ کمپنی کے ساتھ آفسیٹ پارٹنر ہو گی لیکن پھر ایچ اے ایل کو اس معاہدے سے باہر کر دیا گیا اور اس کی جگہ انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کو شامل کر دیا گیا۔ یہ ساری وہ تبدیلیاں تھیں جس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ قیمتوں کو لے کر وزیر دفاع اور بی جے پی کے تمام سینئر رہنماؤں نے کہا کہ اس معاہدہ میں قیمتیں نہ بتانے کا کلاؤز ہے ، لیکن اس کے بعد قیمتیں سامنے بھی ا ٓ گئیں۔بڑھی قیمتوں کے لئے کہا گیا کہ جہاز میں کچھ نئے فیچرس شامل کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔

حکومت کے پاس آج تک طیاروں کی تعداد کم کرنے اور ایچ اے ایل کی جگہ انل امبانی کی کمپنی کو شامل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ اب اس تعلق سے روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ پہلے فرانس کے سابق صدر فرینکوئس اولاندنے ایک نیوز پورٹل ’میڈیا پارٹ‘ کودیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ انل امبانی کی کمپنی کو اس معاہدے میں شامل کرنا ہماری پسند نہیں تھی بلکہ ان کو ہمیں تھوپا گیا تھا اور ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت ہند چاہتی تھی کہ ایچ اے ایل کی جگہ انل امبانی کی اس کمپنی کو پارٹنر بنایا جائے جو معاہدہ سے محض 12 روز پہلے ہی بنی تھی ۔اب دسالٹ کمپنی کے ٹیکنیکل ہیڈنے کہہ دیا ہے کہ دسالٹ کمپنی کے پاس انل امبانی کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ معاہدہ ختم ہو جاتا۔

اب حزب اختلاف بالخصوص کانگریس اس ایشو کو زور و شور سے اٹھا رہی ہے اور وہ عوام تک یہ بات پہنچانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ اس معاہدے میں بڑا گھوٹالہ ہوا ہے۔ لیکن حکومت نہ صرف خاموش ہے بلکہ جے پی سی سے جانچ کرانے سے متعلق کانگریس کا مطالبہ بھی نہیں مان رہی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Sep 2018, 3:05 PM