نوجوانوں میں ویب سیریز کا بڑھتا رجحان

نوجوان اب ٹی وی سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ کچھ نوجوان انگریزی سیریل دیکھ لیتے ہیں، لیکن اب ان سے بھی بیزار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا کے تفریحی پروگراموں کوآن لائن ٹی وی ہمارے پاس لے آیا ہے۔

قومی آواز گرفکس
قومی آواز گرفکس
user

پرگتی سکسینہ

اگر آپ ٹی وی دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو ’کُم کُم بھاگیہ‘، ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘، ’قبول ہے‘، ’یہ محبتیں‘، ’ناگن‘، ’قسم‘، ’اس پیار کو کیا نام دوں‘، ’دل سے دل تک‘، ’کرم پھل داتا‘وغیرہ ناموں سے ناوقف نہیں ہوں گے۔ ہندی ٹی وی سیریلوں کے پلاٹوں کو اگر ایک جملے میں سمجھانا ہو تو وہ ہے ’انسانی تعلقات کو ربڑ کی طرح کھینچ کر دکھانا اور مذہبی یا خیالی کرداروں کی واہ وہی کرنا‘۔ کیا کریں! ٹی وی کا کنٹینٹ ٹھہرا ،ٹی آر پی کی بھوک اور اگر کچھ گنجائش باقی رہتی ہے تو وہ پروڈکشن کمپنیوں کی مارکیٹنگ ٹیم کی صلاح پر قربان ہو جاتی ہے۔

نتیجتاً نوجوان اب ٹی وی سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ دراصل آن لائن ٹی وی پوری دنیا کے تفریحی ڈراموں، سیریلوں اور پروگراموں کو ہمارے نزدیک لے آیا ہے اور نئی نسل اب نہ صرف انگریزی بلکہ پاکستانی ، ترکی، کوریائی اور ایرانی ڈراموں و پروگراموں کو ہماری آج کی نسل آن لائن دیکھنے لگی ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں سے ہندی آن لائن سیریلوں نے دیسی نوجوانوں میں اپنی خاص جگہ بنا لی ہے۔آن لائن سیریلوں کے حوالے سے شروعات میں کچھ شک و شبہات ضرور تھے لیکن جس رفتار سے وہ نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ٹی وی ناظرین کی ایک اچھی تعداد اب آن لائن سیریلوں کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔

جون 2016 کو ایک 5 قسطوں والا سیریل ’ٹی وی ایف پکچرس ‘ جسے آن لائن انٹرٹینمنٹ نیٹورک دی وائرل فیور نے بنایا اور اپنے یو ٹیوب چینل پر ریلیز کیا۔ یہ سیریل اتنا مشہور ہوا کہ جلد ہی آن لائن دیکھے جانے والے سیریلوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کامیڈی سیریل ’فرینڈس‘ کو بھی اس نے پیچھے چھوڑ دیا۔آئی ایم دی بی (انٹرٹینمنٹ مووی ڈیٹا بیس ) کی ٹی وی شو لِسٹ میں یہ اکیسویں نمبر پر رہا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
ویب سیریز’پرمانینٹ روم میٹس‘ کا ایک منظر

اس کامیابی سے بڑے بڑے پروڈیوسروں کو بھی آن لائن سیریل بنانے کا حوصلہ ملا اور اب یش راج فلمز اور بالاجی فلمز جیسے بڑے بینر بھی ویب سیریز بنا رہے ہیں اور ان سیریلوں کی کہانیاں اور پلاٹ کافی دلچسپ ہیں۔ مثلاً ایک سیریل ہے ’آ ۔ای۔ شا مائی وَرچوئل گرل فرینڈ‘ جوآرٹی فشیل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی فکر وخیال پر مبنی ہے۔ اسی طرح ’بَیکڈ ‘ ایک ایسے طالب علم کی کہانی ہے جو دیر رات کھانا ڈیلیوری کرنے کا کاروبار شروع کرتا ہے۔ ’پرمانینٹ روم میٹس ‘ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو شادی جیسے رشتہ کے لئے تیار نہیں ہے لیکن جب اس کا بیرونی دوست اس سے شادی کی پیشکش کرتا ہے تو وہ دونوں ساتھ رہنےکا ایک نیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ’انسائڈ ایج ‘ کرکٹ کی دنیا میں سیاست اور جدو جہد کی داستان ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سیریلوں کا بازار کیا ہے اور پروڈیوسرس کس طرح ان سیریلوں سے کمائی کرتے ہیں، زیادہ تر متوسط طبقہ کے ناظرین میں بھی اس بات کو لے کر تجسس رہتا ہے اور وہ اس لئے کیوں کہ یہ سیریل کبھی ٹی وی پر دکھائی نہیں دیتے ۔ حالانکہ ان کا اشتہار ضرور اکثر و بیشتر ٹی وی پر نظر آ جاتا ہے۔

دراصل آن لائن سیریل بناتے وقت نہ تو تخلیق کار یا ہدایت کار پر ٹی آر پی کا دباؤ ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات کا کہ اشتہارات کے چکر میں انہیں کسی بھی طرح کی کہانی کو کھینچتے چلے جانا ہے۔ اس لئے وہ نئے پلاٹوں اور قصہ گوئی کے نئے تجربات کا استعمال آزادی کے ساتھ کرتے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یو ٹیوب اور ہاٹ اسٹار پر مسلسل ان نئی کہانیوں اور تجربات کو دیکھنے والے ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے جو لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ناظرین صرف اور صرف غیر دلچسپ ڈراموں اور گھسی پٹی خاندانی کہانیوں کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا آج کا سماج اب بدل رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی پسند ناپسند اور عادات و اطوار میں بھی ہو رہی تبدیل کے فرق کو صاف طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔

آن لائن سیریلوں کے پروڈیوسر فنانس کے لئے برانڈ اسپانسرشپ پرمنحصر ہوتے ہیں۔ عام طور پر برانڈ اسپانسرشپ، اشتہارات اور یو ٹیوب پر ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہونے پر ہونے والا منافع ان تخلیق کاروں کی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔

حالانکہ ان ویب سیریز سے فی الحال ٹی وی پر چل رہے غیر دلچسپ اور لمبے چلنے والے سیریلوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ ٹی وی کا دائرہ ابھی تک بہت وسیع ہے ۔ لیکن پچھلے دو سالوں میں ہی جس طرح ویب سیریز نے اپنی خاص پہچان بنا لی ہے اس کا مستقبل میں بڑے پیمانے پر اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹی وی کے تمام ناظرین ویب سیریز کی طرف منتقل ہو جائیں اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ شاید ویب سیریزسے عبرت حاصل کر کے ٹی وی کے غیر دلچسپ اور بے کار سیریل بنانے والے پروڈیوسر اپنے کو بدلیں جس کے نتیجہ میں کچھ مثبت پروگراموں کی تخلیق ممکن ہو سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Feb 2018, 2:00 PM
/* */