کہانی: لوٹ کے بدھو گھر کو آئے...

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

حنا وزارت

ہم اور شمیم آپا ایک ہی اسکول میں پڑھاتے تھے، ہمارا اسکول اچھے اسکولوں میں مانا جاتا تھا اور ہم دونوں ہی اپنی نوکری سے بہت خوش تھے ۔ ہمارے سارے ہی ساتھی بہت پیار و محبت سے اسکول میں پڑھاتے تھے اور یہاں تک کہ ایک دوسرے پر جان نثار کرنے والے دوست تھے۔ بچوں میں بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بے حد پیار و محبت اور بھائی چارے کا ماحول تھا کہ یکا یک ایک دن جب ہم لوگ اسکول پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہمارے پرنسپل صاحب اسکول چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ خیر ہم سب کو بے حد افسوس ہوا کیو نکہ اسکول کا یہ خوشگوار ماحول ان کی ہی وجہ سے تھا۔ دو تین دن تک تو اسکول میں بچے بڑے سب ہی بڑے افسردہ رہے اور بس سب ہی یہ کہتے تھے کہ ہمارے پرنسپل کیوں یہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن جب ہم لوگوں سے رہا نہ گیا تو ہم اپنے پرنسپل صاحب کے گھر گئے اور بات کی نوعیت معلوم کی تو اور بھی غم میں ڈوب گئے کہ اسکول کی مینجمنٹ نے ان کو ریٹائر کر دیا ہے۔ شاید مینجمنٹ کو اسکول کا خوشگوار ماحول پسند نہیں تھا تبھی یہ قدم اٹھایا گیا۔ ہم سب ہی کے منھ سے بس یہی نکلا۔ پھر کچھ دن تو ہماری سینئر ساتھی نے ہی پرنسپل کا کام سنبھالا اور ہم سب نے اپنے کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔ اسکول کا قاعدہ تھا کہ پرنسپل باہر ہی کا ہو کیونکہ اسکول کا سینئر ٹیچر پارشیلٹی کر سکتا ہے۔ اس لیے کچھ دن بعد ہماری سینئر ساتھی نے نئے پرنسپل کا سارے اسکول کے لوگوں سے مع بچوں کے تعارف کروایا۔

دن گزرنے لگے اور ہم دھیرے دھیرے اپنے پرانے پرنسپل کو بھول کر نئے پرنسپل کے ساتھ مل کر کام کرنے میں لگ گئے اور ان کو اسکول کے خوشگوار ماحول سے متاثر کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن نئے پرنسپل کا مزاج ہم لوگوں کے مزاج سے بہت فرق نکلا اور انھوں نے ہمارے پیار محبت کے ماحول کوتوڑنا شروع کر دیا جس سے ہم سب ہی میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ ہمارے ساتھیوں نے دھیرے دھیرے دوسری جگہ نوکریاں تلاش کر کے اسکول کوچھوڑنا شروع کردیا ۔ لیکن میں نے اور شمیم آپا نے سوچا کہ ہم اس ماحول سے گھبرا کر نہیں جائیں گے اور یہیں رہ کر ماحول کی خوشگواری کو سلامت رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر آخر ہم بھی اس تناؤ کے ماحول سے تنگ آگئے اور نوکری کی تلاش شروع کر دی ۔ روز ہی لائبریری میں بیٹھ کر اخبار میں نو کری کےاشتہار کی چھان بین کرنی شروع کر دی کہ ایک دن ہم کو دہلی کے ایک اچھے اسکول میں لیڈی ٹیچر کی ضرورت اور اچھی تنخواہ کے ساتھ رہنے کی سہولیت کی خبر پڑھتے ہی دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بس ہم دونوں نے فارم منگا کر بھر دیااور پھر روز بلاوے کا انتظار کر نے لگےاورآخر ایک دن مراد پوری ہوئی کہ ہم دونوں کو ہی اسکول والوں نے انٹر ویو کے لئے بلا لیا ۔ فوراً ہی ایک دن کی چھٹی کی درخواست دے کر ہم دونوں نے انٹر ویو میں جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ ہم دونوں کے گھر قریب ہی تھے تو طے یہ ہوا کہ شمیم آپا صبح ساڑھے پانچ بجے آکر مجھے گھر سے لےلیں گی اور ہم چھ بجے والی گاڑی سے دہلی پہنچ کر گیارہ بجے کا انٹرویو دے لیں گے۔ صبح کو جلدی جلدی تیار ہو کر میں شمیم آپا کا بڑی بے صبری سے انتظار کرنے لگی۔ شمیم آپا نے جیسے ہی مجھے پکارا ویسے ہی میں دروازہ کھول کر جلدی سے باہر آئی اور ان سے فوراً ہی کہا لگتا ہے کہ دیر ہو گئی کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے کہ شمیم آپا نے بنا تاخیر کیے جواب دیا ارے چھ بجے والی گاڑی چھوٹ گئی تو سات بجے والی گاڑی سے چلیں گے تم فکر مت کرو اور بس جلدی قدم بڑھاؤ۔ جیسے ہی ٹکٹ لے کر ہم پلیٹ فارم پر پہنچے تو گاڑی نے رینگنا شروع کر دیا تھا۔ چلتی گاڑی میں چڑھنا ناممکن تھا اس لیے میں نے شمیم آپا سے تھوڑا فکر مند ہو کر کہا اب کیا ہوگا۔ گاڑی تو چھوٹ گئی۔ ارے نہیں یار آؤ میرے ساتھ آؤ، ابھی سات بجے والی گاڑی بھی تو ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا۔ لیکن شمیم آپا اس گاڑی کے لیے تو ہم کو دہلی سے آگے کا ٹکٹ لینا پڑے گا جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ آؤ تو تم میرے ساتھ ،میں یہاں کئی افسروں کو جانتی ہوں ان سے بات کرتے ہیں۔ ہم انٹرویو تو دینے جائیں گے ہی، تم اطمینان رکھواور واقعی ہمارا کام ہو گیا اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ہم دونوں کافی خوش تھے اور مسکرا مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ جیسے نوکری ہی مل گئی ہو ۔ گاڑی کا فی تیز رفتار سے چل رہی تھی ۔ ہم دونوں ہی آس پاس بیٹھے لوگوں کے ساتھ باتوں میں مگن ہو گئے اور اس بیچ کچھ چری بری بھی کر لی ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کو مسکرا مسکرا کر دیکھ بھی لیتے تھے کہ جیسے لگ رہا ہو کہ بس اب تو ہماری نو کری پکی اور اس اسکول سے ہمیں چھٹکارہ مل ہی جائے گا ۔ اسی سبب ایک گھنٹے کے سفرکا پتہ ہی نہیں لگا کہ ایک دم سے گاڑی دھیمے ہو کر دادری کے اسٹیشن پر رک گئی۔ شمیم آپا دادری تو اس کا اسٹاپیج نہیں ہے پھر کیوں رک گئی یہ گاڑی۔ میرے سوال پر وہ بولیں یہاں سے پاس نہیں ملا ہوگا اس لیے رک گئی ہے۔ ابھی چل دے گی، تم گھبراؤ مت۔ خیر دس منٹ گزرے۔ اسی طرح بیس منٹ گزرے اور آدھا گھنٹہ گزرنے پر سب ہی لوگوں میں بے چینی شروع ہو گئی تو پتہ لگا کہ کچھ پٹریوں پر کام چل رہا ہے اس لیے گاڑی تھوڑی دیر میں چلے گی۔ اس وقت تک زیادہ فکر اس لیے نہیں ہوئی کہ گاڑی سپر فاسٹ ہے وقت کور کر لے گی اور ہم وقت پر انٹر ویو کے لئے پہنچ ہی جائیں گے۔

اللہ اللہ کر کے گاڑی دھیمے دھیمے چلنے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں گاڑی اپنی رفتار سے دہلی کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر سے ہم دونوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور میں نے کہا کہ میری دعا قبول ہو گئی اب ہم انٹر ویو دینے پہنچ ہی جا ئیں گے ۔ گاڑی نے ہمیں دس بجے نئی دہلی کے اسٹیشن پر پہنچا دیا۔

ہم لوگ اسٹیشن سے باہر آئے اور ڈی ٹی سی کی بس میں بیٹھ کر اسکول کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی ہم تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ بہت تیز بارش شروع ہو گئی ۔ خیر ڈر کس بات کا تھا آرام سے بس میں بیٹھے تھے ۔ لیکن خدا تو ہمارا ہر جگہ امتحان لے رہا تھا ۔ اسکول کے قریب اسٹاپ پر اترے تو وہاں بہت پانی بھرا ہوا تھا ،ہارے تب بھی نہیں ہم لوگ۔ سائیکل رکشا سے ساڑھے بارہ بجے ہم اسکول کے اندر تھے۔ اسکول کے کیمپس میں برسات کا پانی بالکل نہیں بھرا تھا۔ اسکول میں بڑے بڑے درخت تھے اور کافی اچھی ہریالی تھی۔ دیکھ کر کافی خوشی ہوئی۔ گیٹ کے اردلی کی مدد سے کیمپس میں جہاں انٹرویو ہو رہا تھا وہاں پہنچ گئے۔ کافی لوگوں کا انٹرویو ہو چکا تھا۔ ہم دونوں کا بھی نام نکل چکا تھا۔ پھر وہاں اپنی پوری داستان سنائی اور دوبارہ اپنے نام کے لیے التجا کی۔ خیر کامیاب ہوئے اور دو بجے ہمارا انٹرویو ہو گیا۔ ریزلٹ فوراً ہی آنا تھا۔ سب سے کہا گیا کہ آپ سب انتظار کیجیے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ ہم دونوں کو ہی اسکول میں چھوٹی کلاس کو بڑھانے کے لیے رکھ لیا گیا ہے اور ہم سے کہا گیا کہ ایک ہفتے میں آ کر ہم لوگ جوائن کر سکتے ہیں۔

ہم دونوں نے وہیں بیٹھ کر سوچا کہ نوکری تو اچھی ہے لیکن کیا ہم لوگ دہلی کی بھاگ دوڑ کی زندگی جی پائیں گے اور کافی سوچنے کے بعد ہم نے اسکول والوں کا کافی شکریہ ادا کیا اور نوکری کرنے سے انکار کر کے اسکول سے نئی دہلی اسٹیشن آ کر شام کی گاڑی سے رات آٹھ بجے علی گڑھ پہنچ کر ہم دونوں نے صبح اپنے اسکول جانے کا فیصلہ کیا اور ایک دوسرے سے کہا۔ ’خیر سے بدھو گھر کو آئے‘۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔