یومِ پیدائش پر خصوصی: عینی آپا کا افسانہ ’یہ باتیں‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مشہور افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم اور صاحب اسلوب خاتون قلمکار نذر سجاد حیدر کے گھر 20 جنوری 1926 کو ایک بٹیا نے جنم لیا جس کا نام رکھا گیا قرۃالعین حیدر۔ ذہین والدین کی تربیت نے قرۃ العین حیدر کے اندر ایک ایسی شمع روشن کر دی جس کی چمک کم عمری میں ہی نظر آنے لگی تھی۔ بہت جلد ان کا شمار اردو کے منفرد فکشن نگاروں میں ہونے لگا اور مختلف رسائل و جرائد میں ان کے افسانے شائع ہونے لگے۔ پہلا افسانوی مجموعہ 1947 میں ’ستاروں سے آگے‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان کے اہم افسانوں میں ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘ اور ’جگنوؤں کی دنیا‘ وغیرہ شامل ہیں۔ عینی آپا کے نام سے مشہور قرۃالعین حیدر کو ان کے ناول ’آگ کا دریا‘ اور ناولٹ ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ نے شہرت دوام عطا کی۔ ’میرے بھی صنم خانے‘ اور ’آخر شب کے ہم سفر‘ ناول نے بھی خاصی مقبولیت حاصل کی۔ ناولٹ ’سیتا ہرن‘، ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ اور ’چائے کے باغ‘ نے بھی انھیں منفرد فکشن نگار ثابت کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ گیان پیٹھ اور پدم بھوشن اعزاز یافتہ قرۃ العین حیدر کی سالگرہ کے موقع پر ’قومی آواز‘ اپنے قارئین کے لیے عینی آپا کا افسانہ ’یہ باتیں‘ پیش کر رہا ہے جس کی اشاعت 1944 میں ہوئی تھی۔

— —— — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — — —  

———————————— یہ باتیں ————————————

——————————————————— قرۃ العین حیدر ———————————————————

میرے دماغ میں اتنے بہت سے خیالات تیزی سے رقص کر رہے ہیں... یہ بے معنی اور بے سر و پا باتیں... نہ معلوم میرے چھوٹے سے سر میں اتنی ساری باتیں کیسے ٹھونس دی گئیں... میرا بے چارہ چھوٹا سا سر... بالوں کی سیاہ لٹوں میں لپٹا ہوا... میرے سیاہ بال اور نیلی آنکھیں بہت پسند کی جاتی ہیں... ڈینیوب کے نیلے پانیوں کی طرح چھلکتی ہوئی آنکھیں... ڈینیوب اور والگا... اطالوی اور روسی تاکستانوں کے گرم سائے اور سیب کے درختوں کے جھنڈ... رومان... زندگی...۔

لیکن میری زندگی پر بڑی قنوطیت سی چھائی جا رہی ہے۔ شاید موسم بدل رہا ہے اس لیے... بے مزہ اور پھیکی پھیکی ہوائیں ہیں کہ چلے جا رہی ہیں... پت جھڑ ختم ہونے ہی میں نہیں آتی۔ یہ ویران سبزہ گاہیں، اور سڑکوں پر خاموشی سے چکر کاٹتے ہوئے بگولے... یہ صحرائی جھونکے جب اپنے دامن میں شاہ بلوط اور شہتوت کے خشک پتوں کو سمیٹے ہوئے میرے دریچے کے سامنے سے گزرتے ہیں تو مجھے بڑے زوروں سے غصہ آ جاتا ہے... نہ معلوم بہار کب آئے گی...۔

گزشتہ موسم گل میں تو ہمارا گھر گہرے نیلے اور قرمزی رنگ کے پھولوں کی گنجان بیلوں میں بالکل چھپ گیا تھا۔ اور باغ میں شہد کی مکھیاں خوب اونچے سروں میں بھنبھنایا کرتی تھیں۔ اور خالد ٹینس کھیلتے کھیلتے سیٹیاں بجانی شروع کر دیتا تھا... لیکن بھئی مجھے اس سے کیا...۔

رضیہ مجھ سے ایک دن کہہ رہی تھی کہ تم کتابیں وتابیں بہت پڑھتی رہتی ہو اسی لیے تمھارا دماغ خراب ہو چلا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ہندوستان کو رومان کی ضرورت نہیں۔ اسے روٹی چاہیے... ٹھیک تو ہے... ہا! بے چارہ کلرکوں اور مزدوروں کا ہندوستان۔ لیکن میں اکیلی بھلا کیا کر سکتی ہوں اس کے لیے...۔

پچھلے نومبر کی ایک سرد رات... سنیما سے واپسی پر خالد نے میرا تعارف ایک بہت اچھے سے انسان سے کرایا۔ اور میرا خیال ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی میں نے اسے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اسے چائے پر بلایا۔ لیکن نہ معلوم وہ کیوں نہیں آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بہت رات گئے تک برآمدہ میں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی تھی... کہرہ اور دھندلکا بڑھتا جا رہا تھا اور بارش شروع ہو گئی تھی۔ سامنے سڑک پر بڑی بڑی موٹریں کیچڑ کے چھینٹے اڑاتی ہوئی نکلی چلی جا رہی تھیں۔ اور ان کی پچھلی سرخ روشنیاں تھوڑی دور تک نظر آنے کے بعد دھندلکے میں غائب ہو جاتی تھیں۔ لیکن وہ آیا ہی نہیں اور مجھے اتنی دیر تک ٹھنڈ میں کھڑے رہنے کی وجہ سے زکام بھی ہو گیا۔ اس رات کھانے کی میز پر رضیہ نے مجھے بتایا کہ میں بہت زیادہ بے وقوف ہوں۔

چند روز بعد وہ مجھے ایک کافی ہاؤس میں ملا۔ میں نے اس سے کہا کہ ٹی پارٹی پر میں نے اس کا بہت انتظار کیا۔ شاید بارش کی وجہ سے راستے میں اس کی موٹر خراب ہو گئی اس لیے وہ نہ آ سکا ہوگا۔

’’میرے پاس موٹر نہیں ہے۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’’تو آپ نے مجھے فون کر دیا ہوتا۔ میں کار بھیج دیتی۔‘‘

’’میرے پاس فون بھی نہیں ہے۔‘‘

...ہا بیچارہ آدمی!... کار اور ٹیلی فون کے بغیر کیسے زندگی گزارتا ہوگا۔ میرے دل میں اس کے لیے بے انتہا ہمدردی پیدا ہو گئی...۔

اور پھر ہم دونوں میں دوستی ہو گئی۔ اس کے دماغ میں بھی ایسی باتیں ٹھنسی ہوئی تھیں جنھیں انگریزی میں Ideas کہتے ہیں۔ اس نے مجھے چند کتابیں پڑھنے کو دیں... ان میں روٹی اور زندگی کے متعلق بہت ساری باتیں لکھی ہوئی تھیں جنھیں میں سمجھ ہی نہ سکی۔ وہ مجھے ’ماری انطونی‘ کہا کرتا تھا۔ اسے مصوری بھی آتی تھی اور میں نے اسے بتایا تھا کہ مجھے لمبے لمبے بالوں والے پائپ پیتے ہوئے آرٹسٹ بالکل چند لگتے ہیں۔

اس کی باتیں بے حد دلچسپ ہوتی تھیں اور میرا دل چاہتا تھا کہ کشتوں کے سہارے بیٹھ کر انھیں سنتی رہوں۔ یہاں تک کہ اس کے سگریٹ کا دھواں ساری کائنات کو اپنے حلقوں میں جکڑ لے اور پھر میں صوفے پر بیٹھی بیٹھی اتنے زور سے ٹھوکر لگاؤں کہ یہ احمق اور بے تکی سی دنیا لڑھکتی ہوئی دور چلی جائے۔ اور پھر بہت اچھی اچھی سی باتیں ہوں جو نہیں ہو سکتیں اور سب چیزیں ٹھیک ٹھیک ہو جائیں۔

وہ ہمارے یہاں بہت کم آتا تھا۔ نہ معلوم کیوں۔ آخری مرتبہ وہ چچا میاں کے پاس کسی کام کے سلسلہ میں آیا۔ چچا میاں وائسرائگل لاج کی پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔ وہ باہر ہی سے واپس جا رہا تھا۔ لیکن میں نے اسے اندر بلا لیا... ہم دونوں کافی دیر تک آتش دان کے پاس بیٹھے رہے... جگمگاتا ہوا ڈرائنگ روم... بزم و گرم صوفے اور قالین... قہوے کی پیالیوں میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ... اور ریڈیو کی ہسپانوی موسیقی... مجھے اس وقت اپنا گھر اور زندگی بے حد پیاری اور عزیز معلوم ہو رہی تھی۔ اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ کاش اس کو بھی اتنی ہی راحت اور خوشی محسوس ہو سکے۔ مجھے یقین تھا کہ ساری دنیا میری طرح خوش و خرم ہے۔ اور چند روز سنیما ہال سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سنا کہ اس کو شاید نمک کے محکمہ میں نوکری مل گئی ہے اور وہ کہیں اور چلا گیا ہے۔ سو یا سوا سو روپے کی نوکری... اور میں سوچنے لگی کہ شاید خدا نے دنیا اسی لیے بنائی ہے کہ اس میں سو روپے کی کلرکی کی جائے اور بس۔

لیکن جب میری پیکار ڈسٹرک پر ٹھیرے ہوئے بارش کے پانی کو زناٹے سے چیرتی ہوئی جگمگاتی ہوئی تفریح گاہوں کے سامنے سے گزر رہی تھی تو میں نے سوچا کہ جس نظام کے ماتحت ہماری زندگی رواں ہے اسے میں بدل تھوڑا ہی سکتی ہوں۔ جو ہو رہا ہے اور ہوتا آیا ہے وہی ہوگا۔ بھئی خالد جو امپیریل سروس میں آ گیا ہے تو اس لیے کہ چچا میاں ’نائٹ‘ ہیں... اور وہ... وہ... افوہ...۔

اور موسم خزاں پھر آ گیا... رات میں اپنے ڈریسنگ روم کے دریچے سے باہر دیکھ رہی تھی... سڑک کے لیمپوں کی مدھم روشنیوں میں بھیگی ہوئی چھتوں اور گیلے کھمبوں کا غیر دلچسپ سا سلسلہ ہمواری اور یکسانیت سے گزرتی چلی جا رہی ہے۔

لیکن اچھے سے آدمی!... میں اب تک تمھیں بھولی نہیں ہوں... شاید اگلے موسم بہار تک بھول جاؤں... پر بہار کب آئے گی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jan 2018, 9:44 PM